کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 46
کی نذر کردیں ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان تقریبات میں غیر ملکی سفیروں کو بلا کر پاکستان کی عشرت پسندی کا ایسا مظاہرہ کیا گیا جو ملک و قوم کی تہذیبی روایات کے خلاف تھا۔جرمنی کے سفیر نے کہا کہ ”ہمارے ملک میں بھی پتنگ بازی ہوتی ہے مگر پاکستان میں انوکھی ہے۔“ چین پتنگ بازی کو رائج کرنے والا ملک شمار ہوتا ہے لیکن جو عیاشی لاہور میں دیکھی گئی اس کا متحمل چین جیسا ملک بھی نہیں ہے… بسنت ہندووٴں کا تہوار ہے لیکن بھارت میں بسنت عام معمول کا دن تھا۔ پاکستانیوں نے اسے ’ہائی جیک‘کرکے لہوولعب کے فروغ کا وسیلہ بنایا۔ اخبارات میں خواتین کے بھنگڑے کی جو تصویریں چھپیں ، غیرت کے منافی ہیں ۔ یہ قوم کش عیاشی اس طبقے کی ہے جس نے حرام مال افراط سے جمع کیا ہے اور اب اس حال مست قوم کا تہذیبی مزاج لبرل ازم کی طرف لانے کے لئے برسرعمل ہے۔ امریکہ جس لبرل ازم کو فروغ دینا چاہتا ہے وہ پورے ڈھول ڈھمکے کے ساتھ یہاں وارد ہوچکی ہے۔ اور اس کو سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے۔“ ایک سال بعد نوائے وقت کے احتجاجی نوٹ میں مزید تلخی پیدا ہو گئی : ” پچھلی تین بسنتوں کے دوران لاہور جیسے علمی وتہذیبی شہر کا جو حال ہوا وہ بیان سے باہر ہے۔شراب کے جام پر جام لنڈھائے گئے۔ حکمرانوں کی موجودگی میں مقامی اور دوسرے شہروں سے آئے ہوئے ’معززین‘ نے وہ حرکات کیں کہ ان کے ذکر سے بھی تعفن محسوس ہوتا ہے ۔یہاں تک کہ خالد حسن جیسا لبرل اور سیکولر خیالات رکھنے والا دانش ور انگریزی روزنامے ڈان میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ بسنت کے روز لاہور’کوٹھے‘ میں تبدیل ہو چکا تھا۔“ (ادارتی نوٹ:۳/جولائی ۲۰۰۳ء) لبرل کلچر کی ایک جھلک حالیہ برسوں میں بسنت کے جنوں نے ہمارے معاشرے کی صدیوں سے مسلمہ سماجی وثقافتی اقدار کو شکست و ریخت سے دوچار کردیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورتیں پتنگ بازی کے شغل میں شریک نہیں ہوتی تھیں ۔ عورتوں اور لڑکوں کا چھت پر جاکر پتنگ کی ڈور پکڑنا یا ’بوکاٹا‘ کے نعروں میں شامل ہونا بے حد نازیبا اور گری ہوئی حرکت سمجھی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ چھتوں پر مرد یا جواں لڑکے ہی پتنگ بازی کا شغل برپا کرتے دکھائی دیتے تھے۔ عام آدمی کی غیرت گوارا نہیں کرتی تھی کہ وہ اپنی بیوی، بیٹی یا بہن کو اس لہوولعب میں شانہ بشانہ شریک دیکھ سکے۔ مگر اب تو معلوم ہوتا ہے کہ شرم و حیا کے تمام پردے گرا دیے گئے ہیں ۔