کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 44
یہی وہ ’نئے دور کا بسنت‘ ہے جس نے پاکستان کی ثقافتی قدروں کو شدید خطرات سے دوچار کردیا ہے اور جس کی وجہ سے ہر اس پاکستانی کا چین غارت ہوگیا ہے جو اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کو یوں نیست و نابود ہوتے دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے۔ بسنت کا ’نیا زور‘ اور ’نئی توانیاں ‘ دیوانہ وار آگے بڑھتی رہیں ۔ بالآ خر ۲۰۰۲ء میں یہ ہنگامہ کلائمکس (Climax) کو چھوتا دکھائی دیا۔ اس سال بسنت کے نام پر وہ ہڑبونگ مچا جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ پہلے بسنت صرف ایک دن منائی جاتی تھی، اس سال تین دن تک یہ شور شرابہ جاری رہا۔ بسنت مافیا نے نئی خرافات متعارف کرائیں ۔ نئے نئے بے ہودہ بسنتی گیتوں سے محلے اور بازار گونجنے لگے۔ Tango نام کی ایک تجارتی کمپنی نے شہر میں جابجا ٹرالر کھڑے کئے جن پر کرائے کے لڑکے اور لڑکیاں ’نچ پنجابن نچ‘ جیسے بیہودہ گیت پر مجنونانہ ڈانس کرتے۔ ماڈل ٹاوٴن، خالد مارکیٹ میں اس کمپنی کا ٹرک مسجد سے محض ۲۰ فٹ کے فاصلہ پر کھڑا کیا گیا۔ اذان اور نماز کے وقت بھی یہ لوگ ’نچ پنجابن نچ‘ کی مستی میں مبتلا رہے۔ متعدد سپیکروں کی کان پھاڑنے والی آواز، بے ہودہ گانوں اور لچر ڈانس سے مقامی آبادی کو اس قدر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کہ شہریوں نے اشتعال میں آکر اس ٹرالر پر ہلہ بول دیا اور اسے زبردستی بند کرایا۔ یہ تو محض ایک مثال ہے ورنہ شہر بھر میں بیہودگی اور لچرپن کا راج تھا۔ یوں لگتا تھا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کی ثقافت کی جڑیں اکھاڑنے اور مغرب کی بیہودہ لبرل تہذیب کورواج دینے کا پروگرام بنایا گیا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے بسنت کو ایک Cover کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ۲۰۰۲ء میں ۱۷/ فروری کو لاہور میں بسنت منائی گئی۔ اس سال سب سے زیادہ Vulgur(بے ہودہ) تقریب کا اہتمام ایک این جی او نے شاہی قلعہ میں کیا۔ قومی اخبارات نے اس تقریب کی جو تفصیلات شائع کیں ، اسے پڑھ کر ہر شخص بخوبی اندازہ کرسکتا ہے کہ ہمارے ہاں بسنت کے نام پر کس طرح کا کلچر پروان چڑھانے کی کاوش کی جارہی ہے۔ روزنامہ پاکستان نے ۱۹/ فروری ۲۰۰۲ء کو اس واقعہ کی خبر صفحہٴ اوّل پر شائع کی۔ اس خبر کی نمایاں سرخی یہ تھی: ”شاہی قلعہ میں کھلم کھلا شراب چلی…“ مزید تفصیلات ملاحظہ فرمائیے: ”لیٹن رحمت اللہ آئی ہسپتال کے زیراہتمام شاہی قلعہ لاہور میں عطیات اکٹھے کرنے کے