کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 43
لاہور کی نئی بسنت ۲۰۰۰ء سے لاہور میں بسنت منانے کے طور طریقوں ، اندز و اطوار اور لہوو لعب کے اُسلوب میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ پہلا سال تھا جب پی ایچ اے اور دیگر سرکاری اداروں نے بسنتی پروگراموں کا نہ صرف بھرپور اہتمام کیا بلکہ ملٹی نیشنل اداروں اور تجارتی کمپنیوں کو بسنتی ثقافت کے فروغ میں والہانہ کردار ادا کرنے کی ترغیب دی گئی۔ بسنت مافیا نے سرکاری شرکت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بسنت میں ایسی ایسی خرافات بھی شامل کردیں جن کا ’سرسوں کے پھول کی خوشبو‘ یا عوام کی ’صاف ستھری‘ تفریح سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس سے پہلے شہر کی عیاش اشرافیہ ناوٴ و نوش اور رقص وسرود کی جو محفلیں کوٹھیوں اور حویلیوں کی چاردیواری میں برپا کرتی تھی، اب اس کا اہتمام ہوٹلوں ، ریستورانوں ، بلند وبالا عمارتوں اور بازاری پلازوں کی چھتوں پربے حد ہنگامہ خیز انداز میں کیا جانے لگا۔ اب تماش بینوں کو بسنتی مجرے دیکھنے یا بسنتی لباس میں گڈے اُڑاتی پری جمال تتلیوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے یوسف صلاح الدین جیسے ’شرفا‘ کی حویلیوں کے طواف کرنے کی ضرورت نہ رہی۔ اب تو ہر دوسرے ہوٹل یا پلازے کی چھتیں مجرہ گاہ کا منظر پیش کرنے لگیں ۔ سینکڑوں نہیں ، بلکہ ہزاروں نو دولتیوں نے بسنت کو ’طوائف‘ سمجھ کر اس پراپنے سرمائے کی یلغار کردی۔ پھر ان لوگوں نے ان چھتوں پر جواں جسموں کی وہ وہ منڈیاں لگائیں کہ یوسف صلاح الدین جیسے روایتی بسنت کے عاشق شرفا بھی اس کودیکھ کر شاید شرما جائیں ۔ اس تبدیلی کو نذیر ناجی جیسے سیکولر کالم نگار نے بھی محسوس کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ”بسنت ہر سال نئے زور اور نئی توانائیوں کے ساتھ آنے لگی ہے اور مجھے ہر بار یوسف صلاح الدین یاد آتے ہیں ۔ لاہور بلکہ پاکستان میں بسنت کو نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور اسے گلی محلوں کے تہوار سے اوپر اٹھا کر پاکستان کی اشرافیہ اور پھر عالمی سطح تک لانے میں یوسف صلاح الدین نے پہلا اور بنیادی کردار ادا کیا۔ اُنہی کی دعوتوں پر لاہور کے ایلیٹ نے بسنت منانا شروع کی … اور پھر تہوار کے پھیلتے رنگ چاروں طرف چھا گئے۔ یوسف صلاح الدین آج بھی اپنی حویلی میں بسنت مناتے ہیں لیکن سرمائے کی یلغار نے انہیں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔“(روزنامہ جنگ:۱۲/فروری۲۰۰۳ء) نذیر ناجی جیسے دانشور تو شاید بسنت کے پھیلتے رنگوں کے سحر سے باہر آنے کو تیار نہیں مگر