کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 42
یاد رہے کہ یہ جواب اسمبلی میں ۱۷/اکتوبر ۲۰۰۳ء کو داخل کرایا گیا اور ۱۲/جنوری ۲۰۰۴ء کوزیربحث لایا گیا۔ ایک طرف رفیعہ ناہید پاشا کی طرف سے بیان کردہ دلخراش واقعات اور حکومت ِپنجاب کی رپورٹ ہے، مگر دوسری طرف ہمارے پیش نظر ایک صوبائی وزیر کا بیان ہے۔ موٴرخہ ۸/جنوری ۲۰۰۴ء کو ایک مقامی ہوٹل میں بسنت فیسٹیول کے آرگنائزر کی طرف سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انسانی جانوں کے حوالے سے فرمایا: ”اس سے کہیں زیادہ ہلاکتیں ، ڈکیتیوں ، ٹریفک حادثات اور خود کشیوں میں ہوتی ہیں ، ا س پر کوئی نہیں بولتا۔“ (نوائے وقت) مجھے یاد ہے کہ معروف کالم نگار جناب عطاء الحق قاسمی نے بھی ۲۰۰۱ء میں روزنامہ ’پاکستان‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں بسنت کے جواز میں کچھ اس طرح کا استدلال پیش کیا تھا، مگر ۲۰۰۳ء کے بسنت کے موقع پر انہوں نے برملا اعتراف کیا کہ بسنت جیسی عوامی تفریح کو مافیا نے اپنی عیاشی اور نمودونمائش کا ذریعہ بنا لیا۔ (کالم موٴرخہ:۱۷/ فروری ۲۰۰۳ء) اگر غور کیا جائے تو ڈکیتیوں ، ٹریفک حادثات اور خود کشیوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں اور پتنگ کی ڈور سے شہ رگ کٹ کر مرنے والوں میں ایک اُصولی فرق ہے۔ ٹریفک حادثات ہوں یا ڈکیتیاں ، ان میں ذمہ دار افراد کو اسی وقت یا بعد میں گرفتار کیا جاسکتا ہے اور ان پرمقدمہ دائر ہوسکتا ہے۔ مگر لاہور جیسے گنجان آباد شہر میں گذشتہ تین سالوں میں ۴۲/افراد پتنگ بازی کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں مگر آج تک کسی بھی ’قاتل ڈور‘ کے پس پشت ہاتھ پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکا، اور نہ ہی اس کا مستقبل میں کوئی امکان ہے۔ پھر ٹریفک اور پتنگ بازی ایک جیسے اہم نہیں ہیں ۔ شہر میں ٹریفک تو ناگزیر ہے، مگر پتنگ بازی کے بغیر نہ صرف یہ کہ گذارا ہوسکتا ہے بلکہ گذشتہ چند ماہ کی پابندی کے دوران عوام نے بہت سکھ پایا ہے۔ پھر یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ٹریفک کے حادثات میں ہونے والی ہلاکتیں لاہور جیسے گنجان آبادی کے شہر میں نہیں ہوا کرتیں ، یہ ہائی ویز پرتیز رفتاری سے ہوتی ہیں ۔ شہر میں تیز رفتار ٹریفک کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس سے ہلاکتوں کا خدشہ رہتا ہے۔ اسی طرح اگر شہری آبادی میں پتنگ بازی سے ہلاکتوں کا خدشہ ہو تو اس پر پابندی ضرور لگنی چاہئے۔ ٹریفک حادثات اور بسنتی حادثات کو ایک ہی میزان میں تولنا غیر منطقی اور غیر عقلی استدلال ہے!!