کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 41
حساس آدمی جذبات پرقابو نہیں رکھ سکتا۔ وہ لکھتی ہیں : ”۲ جولائی ۲۰۰۳ء کے صر ف ایک ہفتے میں تین افراد قاتل ڈور کا شکار ہوئے۔ ۱۴سالہ طالب علم ندیم حسین شام کو ٹیوشن پڑھ کر موٹر سائیکل پر گھر واپس آرہا تھا، اس کی گردن پر کٹی پتنگ کی ڈور پھر جانے سے اس کی شہ رگ کٹ گئی۔ اس سے پہلے کہ کوئی مدد کو آتا وہ کلمہ چوک کے قریب جان جانِ آفرین کے سپرد کرچکا تھا۔ لاش گھر پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ وہ میٹرک کے امتحان کی تیاری کررہا تھا اور ماں بہنیں جنہوں نے اس کے تابناک مستقبل کے حوالے سے کئی خواب دیکھ رکھے تھے، اس کی کتابیں ہاتھ میں لئے بے بسی سے آنسو بہاتی رہیں ، جوان بیٹوں کے لاشے وصول کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ادھیڑ عمر ماں لاش سے لپٹ کر دیر تک روتی رہی۔ اسی طرح مکھن پورہ کا رہائشی مبین شاہد اپنی اہلیہ اور تین سالہ بیٹے فہیم کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار ہوکر سسرال جارہا تھا کہ اچانک مزنگ کے قریب فہیم خون میں لت پت ہوگیا۔ دونوں میاں بیوی وحشت سے چیخ و پکار کرنے لگے تو علم ہوا کہ ڈور بچے کی شہ رگ کاٹ چکی ہے۔ چند لمحوں کے اندر اندر فہیم نے باپ کی گود میں تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔“ (نوائے وقت) معروف کالم نگار حسن نثار نے ’بسنتی قتل عام‘ کے عنوان سے تحریر کردہ کالم میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا : ” ایک اور حادثہ کا میں جزوی طور پر عینی شاہد ہوں ، میں نے کلمہ چوک کے قریب معصوم خون کا وہ بہت بڑا دھبہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ، جس کا تعلق ایک ایسے نو عمر لڑکے سے تھا جو کئی بہنوں کا اکلوتا بھائی ہونے کے ناطے پورے خاندان کی جان تھا اور یہ جان بھی بے رحم ڈور نے لے لی۔اک اور گھر کا چراغ پتنگ بازی نے گل کر دیا۔“(جنگ:۲/جولائی ۲۰۰۳ء) علیٰ ہذا القیاس پتنگ بازی کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے کس کس کا نام لیا جائے۔ خود حکومت ِپنجاب نے حال ہی میں صوبائی اسمبلی میں ایک رکن اسمبلی کے سوال کے جواب میں جو رپورٹ دی ہے، اس کے الفاظ ملاحظہ کیجئے: ”پتنگ بازی کے نتیجہ میں لاہور شہر میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق بسنت کے دوران صرف لاہور شہر میں ۴۲/افراد ہلاک ہوئے جبکہ ۴۲۵/ افراد زخمی ہوئے۔ لیکن حکومت ِپنجاب کی طرف سے پتنگ بازی پر پابندی عائد کرنے کے بعد ان قیمتی جانوں کا ضیاع تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ موٹر سائیکل سوار نوجوان گلے پر ڈور پھرنے کی وجہ سے جاں بحق ہوئے۔ لیکن حکومت کی طرف سے دھاتی تار اور کیمیکل ڈور پر پابندی لگنے کے بعد یہ اموات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔“ (اسمبلی ریکارڈ)