کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 40
بسنت پر انسانی جانوں کا زیاں
بسنت کے پردے میں پاکستان میں رقص و سرود، لہوولعب اور بے حیائی کو فروغ دینے کے لئے ملٹی نیشنل کمپنیاں بھاری سرمایہ کاری کررہی ہیں ۔ بسنتی لہوو لعب کے بڑھتے ہوئے رجحان سے جہاں ہماری ثقافتی اقدار کا جنازہ نکل رہا ہے، وہاں قاتل بسنت کے ہاتھوں اپنی جانیں ہار جانے والوں کے جنازے بھی سال بہ سال اُٹھ رہے ہیں ۔ دھاتی ڈور سے شہ رگ کٹنے کے واقعات پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بسنت کے دنوں میں چھتوں سے گر کر اور گاڑیوں سے ٹکرا کر مرنے اور زخمی ہونے والوں کا ذکر بھی کچھ کم روح فرسا نہیں ہے۔ کاش کہ فلڈ لائٹوں کی مصنوعی چکا چوند روشی میں پتنگ بازی کا شغل برپا کرنے والوں کو احساس ہوتا کہ کتنے معصوم شہری موت کے اندھے غار میں اُتر جاتے ہیں ۔
بسنت کے موقع پر کتنے لوگ ہلاک اور زخمی ہوتے ہیں ، اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھنا تو بہت مشکل ہے ۔گزشتہ چند سالوں سے اخبارات میں دھاتی تار کی و جہ سے بجلی کا کرنٹ لگنے اور شہ رگ پر ڈور پھرنے کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی خبریں شائع ہوئی ہیں ،مگر بسنت کے موقع پر چھتوں سے گر کر، گاڑیوں سے ٹکرا کر اور دیگر وجوہات سے زخمی ہونے والوں کے حتمی اعداد وشمار کو جمع کرنا بے حد مشکل ہے۔ ۲۰/فروری ۲۰۰۰ء کو روزنامہ انصاف نے ۱۹۹۵ء سے لیکر ۲۰۰۰ء تک بسنت کے دنوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق :
سال ہلاکت زخمی سال ہلاکت زخمی
۱۹۹۵ء ۶ ۲۰۰ ۱۹۹۸ء ۶ ۵۰۰
۱۹۹۶ء ۷ (۲بچے) ۲۵۰ ۱۹۹۹ء ۳ ۶۷۵
۱۹۹۷ء ۳ ۸۰۰ ۲۰۰۰ء ۸ ۷۱۳
۲۰۰۳ء میں لاہور میں ۱۰ قیمتی جانیں بسنت کی ’خوشیوں ‘کی نذر ہوئیں ۔ جبکہ ۳۰۰سے زائد افرا د زخمی ہوکر اور اندھی گولیوں کا نشانہ بن کر ہسپتالوں میں پہنچے۔ نوائے وقت کی خاتون مضمون نگار رفیعہ ناہید پاشا نے ۱۹/ جنوری۲۰۰۴ء کو گذشتہ تین برسوں کے دوران پتنگ بازی کے باعث پیش آنے والے چند دلخراش واقعات کی رپورٹ پیش کی ہے۔ اسے پڑھ کر ایک