کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 39
لوگوں کو خاندانی ماحول سے نکال کر بازار اور منڈی کے مخلوط ماحول میں لاکھڑا کیا جائے جس میں لہوولعب، فارغ البالی اور جنسی بے راہ روی کو بنیادی حیثیت حاصل ہو۔ امریکی تھنک ٹینک ان ملٹی نیشنل اداروں کوثقافتی ایجنڈا بھی سونپتے ہیں ۔ ترقی پذیر ممالک کے کلچر کو مغربی کلچر کے مطابق ڈھالنا ان کے اس ایجنڈے کا اہم نکتہ ہے۔ پاکستان میں میکڈونلڈ نقصان میں جارہا ہے، مگر وہ اپنے کسی بھی سیل پوائنٹ کو بند نہیں کررہے۔ امریکہ سے آنے والے ایک باخبر پاکستانی کا کہنا ہے کہ میکڈونلڈ نے پاکستان میں اپنے ریستوران کا جال بچھا کر امریکہ میں اچھی خاصی subsidy (امداد)حاصل کی ہے۔ ان کا ثقافتی ایجنڈا یہ ہے کہ پاکستانیوں کو مشرقی کھانوں سے بیزار کرکے امریکی کھانوں کی رغبت دی جائے۔ امریکہ دنیا میں سیاسی نظام کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافتی اقدار کو بھی مسلط کرنا چاہتا ہے۔ مگر افسوس ہمارے پالیسی ساز اس خطرناک ایجنڈے کا اِدراک کرنے سے قاصر ہیں ۔ وہ محض اس بات پر ہی خوش ہیں کہ انہیں بسنت منانے کے لئے ملٹی نیشنل کمپنیاں کروڑوں روپے دے رہی ہیں اور ان کی جیب سے کچھ خرچ نہیں ہورہا۔ ان سکوں کی جھنکار میں پاکستان پرغیرمحسوس طریقے سے جو ثقافتی یلغار کی جارہی ہے، اس کے خطرناک مضمرات سے چشم پوشی بے حد افسوس ناک ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں بسنتی تہوار کے ذریعے کس طرح کا کلچر پروان چڑھانا چاہتی ہیں ، اس کا اندازہ ان کی طرف سے دیئے گئے اشتہارات اور جابجا نصب کردہ بسنتی بورڈوں پر درج شدہ ان نعروں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ۲۰۰۳ء کے بسنت کے موقع پرپیپسی کولا نے اپنے بورڈوں پر یہ نعرہ درج کیا : سارے لہور دی اِکو ٹور پیپسی گڈیاں ، بھنگڑے ڈور بسنت مناواں ، پینگاں پاواں کھابے کھاواں ، موج اڑا واں ایک اور ملٹی نیشنل کمپنی نے کپڑے کے بسنتی بینروں سے لاہور شہر کو سجا رکھا تھا اس پر تحریر تھا : رقص میں ہے سارا جہاں یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان میں کھابے کھانے اور موج اُڑانے کا کلچر پروان چڑھا کر پاکستان کی نوجوان نسل کو اس کی فکری اَساس اور ان بلند ثقافتی قدروں سے محروم کرنا چاہتی ہیں جن کے بغیر کوئی بھی قوم ثقافتی عروج حاصل نہیں کرسکتی۔ ان بلند ثقافتی اقدار کا ذکر اس مضمون کی تمہید میں کردیا گیا ہے، قارئین خود ہی موازنہ کرلیں ۔