کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 38
بسنت اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بسنت کے موقع پر مال روڈ، جیل روڈ، گلبرگ بلیووارڈ، فیروز پور روڈ اور دیگر اہم شاہرات پتنگوں کی شکل کے بورڈوں اور اشتہارات سے مزین کردی جاتی ہیں ۔ ان شاہراہوں پر سفر کرنے والے کی نگاہیں ان پتنگوں سے چھٹکارا نہیں پاسکتی۔ ٹیلی ویژن اور اخبارات بھی ایسے اشتہارات اور بسنتی پروگراموں کو بھرپور کوریج دیتے ہیں ۔ پی ایچ اے اور دیگر سرکاری اداروں کے تعاون سے بڑے زبردست ’ثقافتی‘ پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں ۔ شاہی قلعہ، حمام، ریس کورس اور دیگر مقامات پر رنگا رنگ تقریبات کی جاتی ہیں جن پر لاکھوں روپیہ خرچ کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سرکاری ادارے اپنے بجٹ سے یہ رقم خرچ نہیں کرتے بلکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور کاروباری ادارے یہ پروگرام سپانسر کرتے ہیں ۔ ۲۰۰۳ء میں بسنت کے موقع پر کوکا کولا نے ۴۵لاکھ روپے اور پیپسی کولا نے ۳۵ لاکھ روپے کی خطیر رقم اس طرح کے پروگرام اور شاہراہوں کو سجانے کے لئے عطیات کے طور پر دی۔ یہ وہ اعدادوشمار ہیں جو پی ایچ اے نے صوبائی اسمبلی کے ایک معزز رکن کے سوال کے جواب میں دیئے۔ سوا ل پیدا ہوتا ہے کہ یہ کثیر القومی تجارتی ادارے پاکستان کے ایک نام نہاد ثقافتی تہوار کی رونق کو دوبالا کرنے کے لئے اس قدر فیاضی اور سخاوت کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں ؟ اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ انہیں ہماری ثقافت سے کوئی دلچسپی نہیں ،درحقیقت وہ ایک ایسی ثقافت کو فروغ دینا چاہتے ہیں جو اُن کی تجارت کو پروان چڑھا سکے۔ مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے اُصولوں کو فروغ دینے والی یہ کمپنیاں تجارت کے ساتھ ساتھ ثقافتی لبرل ازم کا ایجنڈا بھی رکھتی ہیں ۔ ان کا کاروبار مغربی کلچر کو پروان چڑھائے بغیر فروغ نہیں پاسکتا۔ یورپ اور امریکہ میں ان یہودی تاجر اداروں نے پہلے ایک مخصوص لبرل کلچر کو ترقی دی، بعد میں اس موزوں کلچر کی وجہ سے ان کا کاروبارخوب چمکا۔ آج صور ت یہ ہے کہ امریکہ میں پیاس بجھانے کے لئے شاید ہی کوئی امریکی سادہ پانی کا گلاس پئے۔ کوکا کولا اور اس طرح کے مشروب ہی ان کے لئے پانی کی جگہ لے چکے ہیں ۔ پاکستان میں بھی حالیہ برسوں میں ان مغربی مشروبات کی کھپت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ مغربی سرمایہ دارانہ نظام نے جس صارفیت کوجنم دیا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ