کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 37
تسکین کا موٴثر ترین ذریعہ ہے۔ ۲۰۰۰ء سے سرکاری سرپرستی نے اس ہوش ربا شب ِ عشرت کے رنگ ِحنا کو اور بھی چمکا دیا ہے۔ بسنتی پروانے شب ِبسنت کو تابناک شمع سمجھ کر اس پر ایسے جھپٹتے ہیں کہ اہالیانِ لاہورکی زندگیاں اجیرن بنا دیتے ہیں ۔ لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک کااتنا بڑا اژدہام کبھی نظر نہیں آتا۔ دور و دراز سے بسنتی پروانے شب ِبسنت کی بھیگی منور زلفوں کے معمولی لمس کی حسرت دلوں میں لئے دیوانہ وار لاہور پر ٹوٹ پڑتے ہیں ، اندرونِ لاہور ہوٹلوں ، بڑے پلازوں اور بعض زندہ دلانِ لاہور کے مکانات کی چھتیں بسنت نائٹ کو طوائف کے کوٹھے اور انگریز دور کے جمخانہ جیسے میکدے سے زیادہ بارونق نظر آتے ہیں ۔
بسنت نائٹ کو بازار ی عورتیں جسم فروشی سے چاندی بناتی ہیں تو لاہوریے ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بڑے تاجروں کو اپنے مکانات کی چھتیں کرائے پر دے کر ایک ہی رات میں لاکھوں کی کمائی کرتے ہیں ۔ کئی کئی ہفتے پہلے ان چھتوں کے سودے ہوجاتے ہیں ۔ اندرونِ لاہور کی چھتیں بسنت نائٹ منانے کے لئے پچاس ہزار سے لے کر۱۰ لاکھ تک بک کی جاتی ہیں ۔ ان چھتوں پر صرف لذتِ کام و دہن کا ہی اہتمام نہیں ہوتا، ذوقِ سماعت کے لئے راگ رنگ اور ہوس ناک نگاہوں کی تسکین کا بھی پورا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ شراب و کباب، موسیقی، پری زاد چہرے، رقص، جلوے؛ غرض کیا کچھ نہیں ہوتا۔ بسنت نائٹ، شب ِغنا اور شب ِگناہ کابہت ہی کریہہ منظر پیش کرتی ہے۔
لاہور شہر کے ہوٹلوں کی چھتیں ہی نہیں ، کمرے بھی بسنتی ذوق کے مطابق آراستہ کئے جاتے ہیں ۔ شام ڈھلتے ہی ان چھتوں پر راگ رنگ، ناوٴ و نوش ، موسیقی اور پتنگ بازی شروع ہوجاتی ہے۔ ایسی محفلوں میں شراب پانی کی طرح چلتی ہے۔ بسنت نائٹ پران ہوٹلوں میں کمروں کے نرخ چار پانچ گنا بڑھ جاتے ہیں ۔ باذوق تماش بین ایسے ہوٹلوں میں اپنی چاہت کے کمروں میں قیام کے لئے لاکھوں روپے خرچ کرنے سے بھی پس و پیش نہیں کرتے۔ ان ہوٹلوں کی راہداریوں میں جا بجا نشے میں دھت جوڑے جھولتے لڑکھڑاتے نظر آتے ہیں ۔ لاہور شہر میں جنسی بے راہ روی کتنی ہے، اور بازاری عورتوں کے لاوٴ لشکر کس قدر زیادہ ہیں ، اس کا اندازہ اگر کوئی کرنا چاہے تو بسنت نائٹ سے زیادہ موزوں شاید کوئی دوسرا موقع نہ ہو۔