کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 36
کی کوشش کی جاتی ہے۔ غرض ہر ایک قوم کا تہوار منانے کا طریقہ گویا ایک پیمانہ ہے جس سے آپ اس کے مزاج اور اس کے حوصلوں اور اُمنگوں کو اعلانیہ ناپ کر دیکھ سکتے ہیں ۔ جتنی بلند روح کسی قوم میں ہو گی، اتنے ہی اس کے تہوار اخلاقی اعتبار سے مہذب اور پاکیزہ ہوں گے۔ اس طرح اخلاقی اعتبار سے کوئی قوم جتنی پست ہو گی وہ اپنے تہواروں میں اتنے ہی مکروہ مناظرپیش کرے گی۔“[1]
اسلامی تہوارایک عجیب ثقافت ،شان، شائستگی اور اخلاقی بلندی کے حامل ہوتے ہیں ۔اس میں نہ لہو ولعب ہوتا ہے ، نہ گھٹیا تفریحات ۔ان کا بنیادی نصب العین ملت ِاسلامیہ میں اتحاد، بھائی چارہ، محبت اور یگانگی پیدا کرنا اور پاکیزہ اطوار دیناہے۔
بسنت اور آزاد روی
ہمارے ہاں دانشوروں کا ایک مخصوص طبقہ بسنت کو ’ثقافتی تہوار‘ کا نام دیتا ہے۔ مگر گذشتہ چند برسوں سے ’بسنت‘ کے نام پر جو کچھ کیا جارہا ہے، اسے زندگی کی روحانی، فکری اور اخلاقی قدروں کی مجسم تصویر نہیں بلکہ ’تذلیل‘ کہا جانا چاہئے۔
بسنت کے موقع پر جس طر ح کی ’ثقافت‘ کا بھرپور مظاہرہ کیا جاتا ہے، کوئی بھی سلیم الطبع انسان اسے ’بہترین اذہان کی تخلیق‘ نہیں کہہ سکتا۔
بسنت ایک ایسے طرزِ معاشرت کو پروان چڑھانے کاباعث بن رہا ہے جس میں کردار کی پاکیزگی کی بجائے لہوو لعب سے شغف، اوباشی اور بے حیائی کا عنصر بے حد نمایاں ہے۔
گذشتہ چند برسوں سے بسنت کو زبردستی لاہور کے ایک ثقافتی تہوار کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ تاریخی طور پر بسنت ایک ہندووٴانہ تہوار ہی تھامگر جو رنگ رلیاں ، ہلڑ بازی، ہاوٴ ہو، لچرپن، بے ہودگی، ہوسناکی، نمودونمائش اور مادّہ پرستانہ صارفیت بسنت کے نام نہاد تہوار میں شامل کردی گئی ہے، اس کا تاریخ سے کوئی تعلق ہے، نہ اہل پاکستان کی ثقافت اسے کبھی گوارا کرسکتی ہے۔ یہ بالکل نئی شروعات ہیں جنہیں تفریح و ثقافت کے نام پر پاکستان میں متعارف کرایا جارہا ہے۔ لاہوری بسنت کا اہم ترین مظاہرہ ’بسنت نائٹ‘کو دیکھنے میں آتا ہے۔ بسنت نائٹ جسے ’شب ِعشرت‘ کہنا زیادہ مناسب ہے، پندرہ بیس سال پہلے اس کا وجود تک نہ تھا اور آج اس کے بغیر شاید بسنت کا سارا فیسٹیول ’پھیکا اور بے مزہ‘ نظر آئے۔
بسنتی تماش بینوں کے لئے ’بسنت نائٹ‘ ہی سب سے پرکشش اور ان کی ہوسناکی کی