کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 35
”کلچر یا ادب ایک بلند قدر ہے جو کسی نظریہ کی آلہ کار نہیں بنتی۔“
ڈاکٹر رشید جالندھری صاحب کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ
”کلچر کا تعلق اپنی سرزمین، مقامی رہن سہن، رسم و رواج اورزبان و ادب سے بھی ہوتا ہے۔“
جو لوگ کلچر کو محض رقص و سرودتک محدود سمجھتے ہیں اور جن کا تخیل کلچر کے متعلق طوائف کے کوٹھے کے حدود اربعہ کے باہر سوچنے سے قاصر ہے، ان کے لئے کلچر کا مندر جہ بالا سطور میں پیش کردہ تصور شاید قابل فہم نہ ہو۔ ایسے افراد جو ہر طرح کے لہوولعب اور خرافات کو قومی کلچر بناکر پیش کرتے ہیں ، ممکن ہے ان کے اَذہان بھی کلچر کے اس ارفع تصور کو قبول کرنے میں تامل محسوس کریں ، مگر حقیقت یہ ہے کہ کلچر کا حقیقی تصور یہی ہے جس کا خلاصہ اس مضمون کی تمہید کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
تہوار ایک ایسا موقع ہے جو کسی خاص حوالہ کے ساتھ کسی مذہب کے پیروکار اپنے کیلنڈر کے مطابق ہر سال مناتے ہیں ۔یہ حوالہ کسی تاریخی واقعہ کی یاد میں ہوسکتا ہے، اور کوئی مذہبی فریضہ اس کی شکل میں ممکن ہو سکتا ہے،لیکن ایک حقیقت جو کہ ہر جگہ درست نظر آئے گی وہ یہ ہے کہ تہوار ایک تاریخی عمل کی حیثیت سے مذہب اور مذہب کے پیروکاروں کے لیے یگانگت اور مذہبی وحدت کی بہت عظیم بنیاد ہے اور تاریخی طور پر ہمیشہ زندہ رہنے والی مثال ہے۔عمومی طور پر مذہب سے منسلک تہوار معاشرتی رنگ میں ڈوب کر بھی واضح رہتے ہیں ۔[1]
تہوار منانے کے طریقے مختلف اقوام میں مختلف ہوتے ہیں۔ہندووٴں میں تہوار منانے کے خاص طریقے ہیں ۔ ہندووٴں کے تہواروں کے نام تو وہی ہیں لیکن ان کے طریقے بدل گئے ہیں ۔بعض تہواروں کے منانے کے طریقے میں برائے نام فرق کر دیا گیا ہے اور بعض کو مذہبی اُمور میں بہ تغیر نام شامل کر دیا گیا ہے۔[2]
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں :
” تہوار منانے کے طریقے دنیا کی مختلف قوموں میں بے شمار ہیں ۔کچھ میں صرف کھیل کود اور راگ رنگ اور لطف وتفریح تک ہی تہوار محدود رہتا ہے۔کہیں تفریحات تہذیب کی حد سے گزر کر فسق وفجور اور ناشائستگی کی حد تک پہنچ جاتی ہیں ۔کہیں مہذب تفریحات کے ساتھ کچھ سنجیدہ مراسم بھی ادا کیے جاتے ہیں ۔ اور کہیں ان اجتماعی تقریبات سے فائدہ اُٹھا کر لوگوں میں اعلیٰ درجہ کی روح پھونکنے اور کسی بلند نصب العین کے ساتھ محبت اور گرویدگی پیدا کرنے