کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 110
ہوجائیں اور امریکی اور برطانوی سامراج کی آلہ کار حکومت عراقی عوام پر مسلط نہ ہوجائے۔
عراق کی آبادی 26 ملین سے زائد ہے جن میں 60 فیصد شیعہ اور 35 فیصدسنی ہیں یعنی کل آبادی کا 95 فیصد مسلمان ہیں ،باقی پانچ فیصد ’آشوری اور ترکمان‘ ہیں ۔
عراقی معاشرہ میں 80فیصد عرب اور 15 فیصد کرد ہیں ۔ باقی ترکمان ہیں یا آشوری اور ان کے ساتھ معمولی سی تعداد ارمنوں کی ہے۔یہ تمام عیسائی گروہ عراق میں حکومت کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ ارمن انتہائی قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود 98 فیصد عراقی معاشرہ پرحکومت کرنا چاہتے ہیں ۔اور اپنے استحکام کے لئے آرمینیا سے توقعات وابستہ کئے بیٹھے ہیں ۔آرمینیا کا چرچ عراقی اور ترکی ارمنوں کے استحکام کے لئے برملا اپنا کردار اداکررہا ہے۔ اسی طرح آشوری بھی اپنی الگ مملکت کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ ادھر ترکی کی ترکمانوں کے لئے حمایت بھی کسی سے مخفی نہیں ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر بڑی تیزی سے پیش رفت کررہا ہے ۔
اس مذہبی قومی اورعلاقائی صورتِ حال نے عراق کے داخلی حالات کو اور زیادہ پیچیدہ اور گھمبیر بنا دیا ہے اور چرچز کو ان حالات سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کردیا ہے۔
اگرچہ پروٹسٹنٹ، کیتھولک، آرتھوڈکس فرقوں کے درمیان بھی بہت گھرے اختلافات ہیں جس کی وجہ سے وہ باہم برسرپیکار اور دست و گریبان رہتے ہیں ۔ لیکن اسلام کے خلاف محاذ آرائی میں یہ باہم متحد ہیں ۔ اور بڑے بڑے شہروں میں ادارے قائم کرکے قبضہ کی کوشش جس کا مقصود مذہبی اورقومی تعصبات کو ہوا دینا ان مشنریوں کے انتہائی خطرناک اور گھناوٴنے کردار کی غمازی کرتا ہے۔
درج ذیل ادارے خاص طور پر تبشیری لٹریچر کے ذریعے عیسائیت کا پرچار کر رہے ہیں :
’کتابِ مقدس انٹر نیشنل تنظیم ‘: امریکی اخبار ’نیوز ویک‘ نے امریکی چرچز کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے منصوبوں سے پردہ اُٹھایاہے اور ایک تفصیلی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس تنظیم نے عربی زبان میں 10 ہزار پمفلٹ عراق بھیج کر تقسیم کئے ہیں ،جن کا عنوان یہ تھا کہ
”یسوح مسیح امن و سلامتی کے علمبردار ہیں ۔“
نیزرپورٹ میں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ تنظیم مزید 40 ہزار نسخے تیار کرنے کا عزم رکھتی ہے، ان