کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 109
پہلی قسم: ان فوجیوں پر مشتمل ہے جو اتحاد ی افواج کے ٹینکوں پر سوار ہوکر عراق میں داخل ہوئے۔ انہیں امریکی اور برطانوی قیادت و سیادت کی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جن کی قیادت موٴتمر معمدانی جنوبی اور فرینکلین گراہم انسٹیٹیوٹ کررہا ہے۔ دوسری قسم: ان تنصیری اداروں پرمشتمل ہے جنہیں عراق میں مقیم مسیحی اقلیت کی پشت پناہی حاصل ہے ،خصوصاً بصرہ اور کرکوک کے علاقے جو عیسائی فرقہ ’آشوریہ ‘کا مرکز ہیں ۔ ترکمانیوں سمیت ان کی تعداد 5 فیصد سے زائد نہیں ہے اور یہ لوگ پروٹسٹنٹ، کیتھولک اور آرتھوڈکس مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ انگریزی استعمار انتظامی معاملات کے سلسلے میں ہمیشہ ان پرانحصار کرتا رہا ہے یا ان یہودیوں پر جو عراق میں آباد ہیں ۔ 1948ء تک ان یہودیوں کی تعداد ایک لاکھ اٹھارہ ہزار سے زائد تھی،جن میں سے 77 ہزار یہودی صرف عراق کے دارالحکومت بغداد میں آباد تھے۔ ملکی معیشت، بنکوں اور مارکیٹ شیئرز پر ان کا تسلط تھا۔1948ء میں صہیونی ریاست کے قیام کے بعد یہ لوگ عراق چھوڑ کر چلے گئے ۔صرف گنتی کے چند یہودی باقی رہ گئے تھے جن کی تعداد 50سے متجاوز نہ تھی۔ تیسری قسم: ’بین الاقوامی چرچز کمیٹی‘کی ہے، جو طبی اور غذائی امداد کے پردے میں عیسائیت کا پرچار کررہی ہے۔ عراق کے موجودہ حالات، طبی سہولتوں کی ناگفتہ بہ حالت، بھوک اور پیاس سے بلک بلک کر جان دینے والے بچوں کی کثرت جو پہلے 8 فیصد تھی،2002ء کی مردم شماری کے مطابق یہ تعداد بڑھ کر 34 فیصد ہوگئی۔ اس کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا اور صدام حکومت کے خاتمہ کے بعد بچوں کی شرحِ اموات میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ان تمام حالات سے فائدہ اٹھا کر مشنری ادارے لوگوں کو عیسائی بنانے کی سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں ۔ تنصیری تنظیموں کو درپیش مسئلہ ایک شدید مشکل جو ان تنصیری اداروں کے لئے سد ِراہ بنی ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ عراق کی ٪95 آبادی مسلمانوں پرمشتمل ہے۔اسلامی بیداری روز بروز بڑھ رہی ہے، سامراج کے تسلط کے خلاف جہادی روح بیدار ہورہی ہے ، اسلامی نشاۃ ِثانیہ کی اس لہر نے مساجد کو عراقیوں کا مرکز بنا دیا ہے ۔ وہ اپنے دین اور عقیدہ پر فخر کرتے ہیں ۔ ایسی حالت میں انہیں اسلام سے برگشتہ کرنا خاصا دشوار ہے۔ لیکن خطرہ یہ ہے کہ کہیں مسلمان پھوٹ اور انتشار کا شکار نہ