کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 108
کے باوجود تاحال قیامِ امن میں ناکام رہی ہیں ، اُلٹا عراقی عوام کو صدام سے نجات دلانے کے دعوے کرنے والا امریکہ آج انہیں کے سینوں پر گولیوں کی بارش کررہا ہے۔ اقتصادی اور معاشی حالات انتہائی دگردوں ہیں ۔ ہسپتال اور صحت کے مراکز کی بدترین حالت، لباس ، غذا اور صحت کی بنیادی سہولتوں سے محرومی نے عراق کے اجتماعی حالات کو بدترین بنا دیا ہے۔ تنصیری گروہ جو سقوطِ بغداد سے قبل اور بعد اس پوری صورتِ حال کی مسلسل نگرانی کررہے تھے اورانہوں نے سقوطِ بغداد سے قبل ہی انسانی ہمدردی اور دادرسی کے پردہ میں عیسائیت کی تبلیغ کے لئے عراق میں داخل ہونے کے تمام سامان مکمل کر لئے تھے ۔ اب وھ دھڑا دھڑعراق میں داخل ہو رہے ہیں ۔ اب وہ حکومتی اہلکاروں سے برملا کہتے ہیں کہ ہم عراقی باشندوں کو عیسائی بنانے جارہے ہیں ۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تمام پروٹسٹنٹ تنظیموں نے اب اپنے اس خبث ِباطن کو ننگا کردیا ہے۔ اس کا اندازہ فرینکلین گراہم کے اس بیان سے کیا جاسکتا ہے کہ ”امریکی اور برطانوی افواج کے غلبہ کے بعد ہمارا تنصیری عمل بڑی تیزی سے شروع ہوچکا ہے“ اس نے واضح الفاظ میں کہا : ”ہماری تنصیری جدوجہد کا ابھی یہ پہلا مرحلہ ہے۔ اب ہمیں کوئی اس کام سے روک نہیں سکتا۔ اب ہمیں کسی کے سامنے کوئی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت ہے، نہ ہم امریکی اور برطانوی افواج کے محتا ج ہیں ۔“ پروٹسٹنٹ فرقہ کی دو بہت بڑی تنظیموں ’موٴتمر معمدانی جنوبی ‘اور ’سانٹ مارٹن بورسن‘کے علاوہ کئیدیگر مشنری تنظیموں نے عراق میں پھیلی ہوئی سیاسی اور اقتصادی ابتری، غربت ، بیماری ، شدت ِبھوک اور پیاس میں بلکتے بچوں کے والدین کی بے بسی جیسی صورت حال سے فائدہ اٹھا کر انسانی ہمدری کی آڑ میں عراقی باشندوں کو عیسائی بنانے کا گھناوٴنا عمل انتہائی تیز کر دیا ہے ۔ اس کے علاوہ عراق کے پروٹسٹنٹ، آرتھوڈکس اور کیتھولک چرچز بھی تبشیری سرگرمیوں میں نہایت تندہی سے مصروفِ عمل ہیں ۔ تبشیری سرگرمیوں میں مصروفِ عمل تین گروہ اس وقت جوعیسائی تنظیمیں ، مشنری ادارے اور این جی اوز مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں سرگرم عمل ہیں ،ان میں بنیادی طور پر تین طرح کے لوگ شامل ہیں :