کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 106
اس نے تنظیم کے ہیڈکوارٹر ’بون‘ جو کہ متحدہ امریکہ کی ریاست ساوٴتھ کیرولینا South Carolina کا ایک مشہور شہر ہے، سے ریڈیو سٹیشن سے ان خیالات کا اظہار کیا : ”ہمارے مشنری گروپ تنصیری مہم کی سرپرستی کے لئے عراق کی طرف متوجہ ہوچکے ہیں ،جن کا مقصد عراق پہنچ کر عراقیوں کو بچانا ہے اور عیسائی ہونے کے ناطے ہم یہ کام یسوع مسیح علیہ السلام کے نام پر کررہے ہیں ۔“اس نے مزیدیہ کہا کہ ”میرا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ جب ہم اپنے کام کا آغاز کردیں گے تو عنقریب خدا ہمیں ضرور ایسے مواقع فراہم کرے گا کہ ہم دوسروں کو خدا کے بیٹے یسوع مسیح کے بارے میں بتا سکیں ۔“ اس نے بارہا دفعہ یہ کہا کہ ”اسلام امن و سلامتی نہیں ، بلکہ تشدد کی تعلیم دیتا ہے۔“ گیارہ ستمبر2001ء کے واقعہ کے دو ماہ بعد ٹیلیویژن چینلNBC پر گفتگو کرتے ہوئے اس نے کہا : ”اسلام ایک فسادی اور شریر مذہب ہے۔“ امریکی قیادت ، خصوصاً صدر جارج بش کے ساتھ بھی فرینکلین گراہم کا گھرا رابطہ ہے۔ ان کے مختلف پروگراموں میں یہ باقاعدہ شریک ہوتا ہے۔ ایک امریکی عہدہ دار نے ایک نیا عہدہ سنبھالنے پر پارٹی دی تو فرینکلین گراہم نے اس کے اختتام پر دعا کروائی۔ جنگ سے قبل اس تنظیم کے ایک رکن ایفنگیزبشت کندی نے کہاتھا کہ ” ایک مشنری گروپ عموماًسات افراد پرمشتمل ہوتا ہے۔ جبکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے اندر اور باہر اس تحریک کے 16 ملین پیروکار موجود ہیں ۔ یہ تنظیم ایک عرب ملک میں بہت بڑے گودام کی مالک ہے اور اس نے خیراتی سازوسامان کا ایک بہت بڑا ذخیرہ وہاں جمع کرلیا ہے اور اب وہ اس سامان کو عراق منتقل کرکے عراقی شہروں اور دیہاتوں میں تقسیم کرے گی ۔“ اس نے مزید یہ کہاکہ ” ہم اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے کہ ہمارا ادارہ بلاشبہ ایک مسیحی مشنری ادارہ ہے۔لیکن کسی اسلامی ملک میں مشنری کام کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ عراق میں موجودمسیحیوں کا ایک بہت بڑا گروہ مستقبل میں ہمارے ساتھ تعاون میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔“رفاہی اُمور کے حوالہ سے ایفن نے کہاکہ ” ہم بغداد، بصرہ اور عراق کے تمام علاقوں میں پہنچیں گے۔ہم روزانہ دس ہزار سے زائد افراد کو کھانامہیا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔کئی گروپ وہاں ہمہ وقت نئے نئے محاذ کھولنے کیلئے متحرک ہوں گے۔جہاں نیا محاذ کھلے گا وہاں فوراً ایک اور مشنری گروپ بھیج دیا جائے گا.“