کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 102
دہشت گردی کی جڑ قرار دیا گیا۔ اور اس مزعومہ مرض کے لئے جو علاج تجویز کیا گیا، وہ امریکہ کی استعماری سوچ کا واضح آئینہ دار ہے کہ مختلف عرب ممالک میں ایسے تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں جو مغربی اقدار پر مبنی امریکی نظام تعلیم کے حامل ہوں اور ان اداروں کے اساتذہ امریکی جامعات کے تربیت یافتہ ہوں ۔ پھر مغربی تہذیب میں رنگی ہوئی اس پود کو اہم سیاسی و حکومتی عہدوں پر پہنچنے میں مدد دی جائے تاکہ مستقبل میں وہ امریکی پالیسیوں کے کل پرزے بن سکیں ۔ نیز امریکی وزارت خارجہ کی زیر نگرانی امریکی کتب کا ترجمہ کرکے خطہ کے مرکزی اداروں تک پہنچایا جائے اور طے شدہ پروگرام کے تحت ان ممالک کے زیادہ سے زیادہ افراد کو امریکہ میں سیاسی ،اقتصادی ،معاشرتی اور تعلیمی تربیتی کورس کروا کر واپس ان کے ملک بھیجا جائے۔ عرب خواتین کو سیاسی اور اقتصادی خصوصاً پارلیمنٹ میں نمایاں نمائندگی کے لئے کمیشن اور کمیٹیاں تشکیل دی جائیں ۔ واضح رہے کہ اس منصوبہ کو2006ء تک مکمل کرنے کے لئے 2/ارب ڈالر کا بجٹ مختص ہوا ہے۔ اس پروگرام کو نافذ کرنے کے لئے خطے کے ممالک کو چار گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے : (1) سعودی عرب اور مصر کی حکومتوں سے تعرض نہ کرتے ہوئے اُنہیں امریکہ کی زیرنگرانی مندرجہ بالا اصلاحات کو خود نافذ کرنے کا پابند بنایا جائے گا۔ عراق، شام، لیبیااورایران جیسے ممالک میں عسکری قوت کے بل بوتے ان اصلاحات کو نافذ کیا جائے گا۔ عراق پر قبضہ اس استعماری تسلسل کا نقطہ آغاز تھا۔ اب اس کے بعد شام، لیبیا اور ایران پر جارحیت کے لئے منصوبہ سازی ہورہی ہے۔ (2) بحرین، کویت، مراکش اور تیونس وغیرہ جیسے جو ممالک ان اصلاحات پرعمل پیرا ہیں ،اُنہیں دیگر ممالک کے لئے بہترین مثال بنایا جائے گا۔ (3) قطر ، اُردن اور یمن جیسے ممالک جو عملاً امریکہ کے حلیف بن چکے ہیں ، وہ ہرامریکی پروگرام کونافذ کرنے کے پابند ہوں گے – وہ اندرونی معاملات یا قومی مختاری میں مداخلت جیسی اصطلاحوں کوآڑ نہیں بناسکتے۔ ان تمام مقاصد کو بروئے کار لانے کے لئے مغربی طاقتوں نے ایک طرف عسکری میدان ٭ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے : ’عالم اسلام کے لیے امریکی منصوبے ‘ از عبد الغفار عزیز ، ترجمان القرآن ، مارچ 2003ء منصوبے کے مکمل متن کے عربی ترجمہ کے لیے ملاحظہ ہو : ویب سائٹ www.closboa.com