کتاب: محدث شمارہ 277 - صفحہ 101
اسلام اور عیسائیت محمد اسلم صدیق صلیبی افواج کے زیر تسلط عراق میں مشنری سرگرمیاں تیسرے ہزاریہ میں اُمت ِمسلمہ کو درپیش چیلنجوں کی تعداد روز افزوں ہے۔ ان میں سے خطرناک چیلنج امریکہ کا ’نیو ورلڈ آرڈر‘ ہے۔ ا س نظام کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے وہ اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی تمام معاشرتی بیماریوں کو جو مغربی معاشرہ کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں ، تمام تہذیبوں میں داخل کرنا چاہتا ہے!! سوویت یونین کے سقوط کے بعد اسلام ہی ا س کے راستہ کا سب سے بڑاپتھر ہے۔ جس کو ہٹانے کے لئے 20ویں صدی کی چھٹی دہائی میں باقاعدہ عملی کاوشوں کا آغاز ہوا اور 1965ء میں دوسری مسکونی کانفرنس میں یہ منصوبہ بنایا گیا کہ تیسرے ہزاریہ کا استقبال اس حال میں کیا جائے کہ اسلام دنیا کے نقشے سے مٹ چکا ہو۔ اس کنونشن میں طے پایا کہ تمام چرچز کو کیتھولک روما کے تحت ایک ہی صف میں دشمن کے خلاف متحد کیا جائے اورکنونشن میں اسلام کو اپنا واحد دشمن قرار دیا گیا۔ نیزیہ طے کیا گیا کہ 20 ویں صدی کی آٹھویں دہائی میں بائیں بازو کی قوتوں کا قلع قمع کیا جائے گا اور 90 کی دہائی میں اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔ اس کے بعد 1978ء میں امریکہ کے شہر کولوراڈو میں ایک اور کانفرنس منعقد ہوئی جس میں عیسائیوں کے 150/ایسے پادری شریک ہوئے جو تنصیری سرگرمیوں میں سپیشلسٹ تھے۔ اس کانفرنس میں 40/مقالے پیش کئے گئے ،جن کا مشترک موضوع یہی تھا کہ مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لئے کیا طریقہ ہائے کار اختیار کئے جائیں ؟ پورے ایشیا کو امریکی استعمار کے تحت لانے کے لئے 12/ دسمبر 2002ء کو واشنگٹن کے ایک تھنکرز فورم کے سامنے امریکی وزیرخارجہ کولن پاول نے ایک منصوبہ پیش کیا جس کو ’امریکی مشرقِ وسطی شراکت برائے جمہوریت و ترقی ‘کا ایک پرفریب نام دیا گیا۔ اس منصوبہ میں ایشیا اور خصوصاً عرب ممالک کو دہشت گردوں کا اصل گڑھ قرا ردیا گیا اور خاص طو رپر جمہوری اقدار کے فقدان ،آبادی میں غیرمنظم اضافہ اور ’فاسد‘ نظامِ تعلیم کو اس نام نہاد ٭ خریج جامعہ لاہور الاسلامیہ ، رکن شعبہ ترجمہ مجلس التحقیق الاسلامی