کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 9
اختر سے کہا کہ وہ قرارداد کا مسودہ ایوان کو پڑھ کر سنائیں ۔ سپیکر کی ہدایت پر نعیمہ اختر اور مسلم لیگ (ق) کی رکن اسمبلی نگہت اورک زئی نے قرار داد کا مسودہ ایوان میں پڑھ کر سنایا۔ جس میں ویمن کمیشن کی سفارشات کی سخت الفاظ میں مذمت کے ساتھ ساتھ اسے مکمل طور پرمسترد کردینے کا مطالبہ شامل تھا۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ حدود قوانین کو منسوخ کرنے کے بجائے ان کے مؤثر نفاذ کے لئے اقدامات کئے جائیں اور اللہ کے بنائے ہوئے قوانین میں کسی ترمیم و تبدیلی کے ہر امکان کو ختم کیا جائے۔ قرارداد کا متن سننے کے بعد صوبہ سرحد کی اسمبلی نے اسے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ ۱۰/ ستمبر کو کل پاکستان اقلیتی اتحاد کی جانب سے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقلیتی اتحاد کے صوبائی صدر مائیکل جاوید نے کہا کہ حدود آرڈیننس اقلیتوں کے نقطہ نگاہ سے ایک امتیازی قانون ہے اور اقلیتی بنیادی حقوق کو مجروح کرتا ہے، اس لئے اقلیتوں پر اس قانون کا نفاذ ختم کردینا چاہئے۔ مائیکل جاوید نے قائداعظم کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ اقلیتوں سمیت تمام پاکستانی شہریوں کو یکساں سٹیٹس حاصل ہوگا اور پاکستان ایک فلاحی ریاست ہوگی۔ لیکن افسوس ہے کہ حدود قوانین کی وجہ سے ہمیں پاکستانی شہریت میں قائداعظم کا موعودہ مقام حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں اقلیت شماری کے حقیقی اَعدادوشمار جاری کئے جائیں اور تمام اقلیتوں کے مذہبی اور سماجی حقوق کی نگہداشت کا خاطر خواہ انتظام کیا جائے۔ ۲۲/ ستمبر ۲۰۰۳ء کو روزنامہ ’نوائے وقت‘ لاہور نے حدود آرڈیننس سے متعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افرا دکے تاثرات ایک فیچر کی صورت میں شائع کئے۔ اس فیچر کے مطابق پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے ٹکٹ پر پنجاب صوبائی اسمبلی کے لئے منتخب ہونے والی خاتون رکن عظمیٰ زاہد بخاری نے کہا کہ ہم سب مسلمان ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہونے کے ناطے ہماری خواہش ہے کہ ملک کا ہرقانون قرآن و سنت کے مطابق ہو، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اسلام جو ایک مکمل اور جامع مذہب ہے، اسے اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بننے والے حدود قوانین اس کی سب سے بڑی مثال ہیں ۔ اس وقت اسمبلیوں میں خواتین کی بڑی تعداد موجود ہے تو یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنی کمیونٹی کے تحفظ کی خاطر حدود کے امتیازی قوانین کو ختم کروائیں ۔ ہم حدود