کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 8
اور امن و تحمل کے راستے پر چلیں ۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت اسلامی اُصولوں سے ایک اِنچ انحراف نہیں کرے گی اور جو عناصر ہمارے دین اور تاریخ میں نقب لگانا چاہتے ہیں ، ان سے تعاون کے بجائے ان کے خلاف مزاحمت کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایوان کو محترمہ نعیمہ اختر کی قرارداد کو منظور کرکے اپنی آواز وفاقی حکومت تک پہنچانی چاہئے۔
متحدہ مجلس عمل کے مولانا ادریس نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ویمن کمیشن کی سفارشات قابل مذمت ہیں ۔ ان سفارشات کے ذریعے ہمارے دینی اُصولوں کو چیلنج کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔ اقلیتی رکن اسمبلی فلکس انوسنٹ نے کہا کہ اگر حدود قوانین کو منسوخ کردیا گیا تو اس سے ملک میں فحاشی کو فروغ حاصل ہوگا۔ مجلس کے رکن اسمبلی شاہ راز خان نے کہا کہ صوبہ سرحد کی پشاور پولیس (سپیشل برانچ) نے ایک سروے کے نتیجے میں حدود قوانین کے خلاف رپورٹ بنا کر وفاقی حکومت کو ارسال کی ہے۔ ہم اس رپورٹ کو پرزور طریقے سے مسترد کرتے ہیں ۔ رکن اسمبلی مولانا عبدالرزاق نے کہا کہ آئین کے مطابق قرآن اور سنت اس ملک کے سپریم لاء کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لہٰذا جو لوگ حدود قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں وہ دراصل اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔
پیپلزپارٹی پٹریاٹ کے سرحد اسمبلی میں پارلیمانی قائد عبد الاکبر خان نے قرار داد کی مخالفت میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ حدود قوانین کا نفاذ یا منسوخی ایک وفاقی معاملہ ہے اور سرحد کی صوبائی اسمبلی کو وفاقی حکومت کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ اس موقع پر اظہارِخیال کرتے ہوئے مسلم لیگ (قائداعظم) کے رکن اسمبلی قلندر لودھی نے عبد الاکبر خان کے موقف کی تائید کی۔ صوبائی وزیرقانون و پارلیمانی اُمور ملک ظفر اعظم نے اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ حدود قوانین کا نفاذ یا منسوخی ایک وفاقی معاملہ ہے۔ لیکن اگر وفاقی حکومت کوئی ایسا اقدام کرنے جارہی ہو جو غلط ہو تو صوبائی اسمبلی قرار داد پاس کرکے وفاقی حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کروا سکتی ہے۔ لہٰذا اس بنیاد پرقرارداد کی مخالفت میں کوئی وزن نہیں ہے۔
وزیر قانون کی تقریر کے بعد سپیکر اسمبلی بخت جہاں خان نے قرارداد کی محرک محترمہ نعیمہ