کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 7
۹ ستمبر کو پاکستان کی کسی بھی پہلی اسمبلی میں حدود قوانین کے حق میں پُرزور آواز بلند ہوئی۔ یہ آواز بلند کرنے کا سہرا سرحداسمبلی کے سر رہا۔ سرحد اسمبلی میں ۹ ستمبر کو متحدہ مجلس عمل کی رکن صوبائی اسمبلی نعیمہ اختر نے ایک باقاعدہ قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد میں نیشنل کمیشن برائے خواتین کی حدود قوانین سے متعلق تجاویز کی مذمت کی گئی تھی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ نہ صرف حدود قوانین کو مذکورہ تجاویز کی روشنی میں ختم کرنے سے باز رہے بلکہ ان قوانین پر مؤثر عمل درآمد کو ممکن بنائے۔ محترمہ نعیمہ اختر نے قرارداد پیش کرتے ہوئے ایوان پر زور دیا کہ ان کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی جائے تاکہ وفاقی حکومت کو ایک واضح اور صاف پیغام بھیجا جاسکے اور پورے صوبے کے عوامی نمائندوں کے جذبات سے آگاہ کیا جاسکے۔ محترمہ نعیمہ اختر نے اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مغرب زدہ این جی اوز اور دوسری سماجی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ حدود قوانین کو منسوخ کروانے جیسے غیر اسلامی اقدام اور اس اقدام کو اسمبلی سے بالا بالا آرڈیننس کی صورت میں نافذ کروانے کے بجائے اس میں ضروری ترامیم کا بل باضابطہ طور پر ایوان میں پیش کریں اور قانون ساز اداروں کو اس سلسلے میں اپنا آئینی حق استعمال کرنے دیں ۔ محترمہ نعیمہ اختر نے کہا کہ حدود قوانین اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہیں اور اگر انہیں محض کمیشن کی سفارشات اور این جی اوز کے دباؤ پر منسوخ کر دیا گیا تو کل کلاں زکوٰۃ اور صبح کی نماز کو بھی ختم کرنے کا مطالبہ سامنے آسکتا ہے۔ بحث کا آغاز ہوا تو ایوان میں موجود حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے تمام ارکان نے بھی ویمن کمیشن کی مجوزہ سفارشات پر سخت تنقید کی۔ صوبہ سرحد کے سینئر وزیرسراج الحق نے ایوان کے سامنے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ صرف ایلیٹ کلاس کی کچھ خواتین اور این جی اوز یہ مہم چلا رہی ہیں ۔ یہ ’بیگمات‘ اسلامی ثقافت کے ساتھ ساتھ پختون ثقافت کو بھی تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں ۔ لیکن ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم ان بیگمات کی تمام خلافِ اسلام کاوشوں کو ناکام بنا دیں گے اور انہیں اسلام کے بنیادی اُصولوں کو مجروح کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔ انہوں نے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ قومی ویمن کمیشن کی سفارشات کو مکمل طور پر نظر انداز کردے۔ سینئر وزیر سراج الحق نے اپنی پرجوش تقریر میں کہا کہ ان کا یہ پیغام صرف حکومت پاکستان کے لئے نہیں ہے،بلکہ تمام مسلم اُمہ کے لئے ہے کہ وہ اسلامی قوانین و ضوابط کو اپنائیں