کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 6
سفارشات کو دیکھے گی اور ضروری اقدامات کرے گی۔ خواتین کے ہر جائز مطالبے کو پورا کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت حقوقِ نسواں پر پورا یقین رکھتی ہے۔ موجودہ حکومت کی سوچ مثبت ہے، منفی نہیں ۔ اس موقع پر مظاہرہ زن خواتین نے ’عورتوں کے خلاف امتیازی قوانین ختم کرو‘ کے نعرے لگائے۔ اس واقعہ کے تقریباً ۵ ہفتے بعد اسلام آباد میں اعلیٰ درجے کے دفاتر رکھنے والی این جی او ’سنگی‘ کے ایک اجلاس میں اخبار نویسوں کے سامنے حدود آرڈیننس کی تنسیخ سے متعلق اپنی رپورٹ کے خلاف اسلام پسند خواتین کے وسیع ردِعمل پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی بھی قانون جو انسانوں یا معاشرے کے کسی طبقے یا حصے کے ساتھ ناانصافی کی اجازت دیتا ہو، ہرگز اسلامی نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے ایک موقع پر کہاکہ ۵ ستمبر کو جتنی خواتین نے ان کے خلاف مظاہرہ کیا تھا، اس سے کہیں زیادہ خواتین نے ۸ ستمبر کو حدود آرڈیننس کے خلاف میری تجاویز کی حمایت میں مظاہرے کئے تھے۔ ۸ ستمبر کو جب مغربی قوانین کی دلدادہ خواتین اسلام آباد میں وزیراعظم میرظفراللہ خان جمالی کے سامنے ’حدود آرڈیننس منسوخ کرو‘ کے نعرے لگا رہی تھیں ۔ تقریباً عین اسی وقت چنیوٹ میں عالمی ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد ہورہا تھا۔ اس کانفرنس کے اختتام پر جہاں یہ قرارداد پیش گئی کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قومی اسمبلی میں پیش کرکے نفاذِ اسلام کی جانب مزید پیش قدمی کو ممکن بنایا جائے، وہیں ایک اور قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں خواتین کمیشن کی ان سفارشات کی پُرزور مذمت کی گئی جن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں نافذ شدہ حدود قوانین کو ختم کردیا جائے۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ خواتین کمیشن کی مذکورہ سفارش پاکستان کی نظریاتی حیثیت اور دستورِ پاکستان کی اساس کے منافی ہے، لہٰذا اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا جائے۔ قرار داد میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر حکومت نے شرعی قوانین کی منسوخی کے لئے کوئی قدم اُٹھایا تو پاکستان کے غیور مسلمان اسے ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ اس کانفرنس میں مولانا منظور احمد چنیوٹی، قاری شیر احمد عثمانی، مولانا زاہد الراشدی، مولانا محمداحمدلدھیانوی، مولانا عزیز الرحمن ہزاروی، حافظ ادریس احمد، مولانا عبدالروؤف فاروقی اور مولانا محمد قادری کے علاوہ مکہ مکرمہ سے مولانا عبدالحفیظ مکی اور مدینہ منورہ سے تشریف لائے ہوئے مولانا شیخ خلیل احمد سراغ جیسے نمایاں علما شامل تھے۔