کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 5
اجلاس کے بعد لابی میں اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی محترمہ سمیعہ راحیل قاضی نے کہا کہ مجلس عمل کی تمام خاتون ارکانِ اسمبلی کنور خالد یونس کے اِقدام پر شدید احتجاج کرتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس نوٹس کے ذریعے اللہ کے بنائے ہوئے قانون کو کالے قانون سے تشبیہ دی گئی ہے۔کنور خالد یونس کو چاہئے کہ وہ استغفار کریں اور تجدید ِایمان کا طریقہ اپنائیں ،کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قوانین سے روگردانی کرنے والوں پر اللہ کی طرف سے بنی اسرائیل کی طرح عذاب نازل ہوگا۔
جماعت ِاسلامی حلقہ خواتین کی ارکان نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان خواتین کے مسائل اور مصائب کا حل اسلامی تعلیمات میں پنہاں ہے، لہٰذا مغرب زدہ روایات کو قوم پر مسلط کرنا اسلامی قوانین سے زیادتی کے مترادف ہے۔ اس سے مسائل اور ناانصافیوں میں مزید اضافہ ہوگا اور خواتین کے خلاف ظلم اور استحصال کو مزید تقویت ملے گی۔
مجلس عمل کی ارکانِ پارلیمنٹ کے مظاہرہ ۵/ ستمبر کا جواب حدود مخالف خواتین این جی اوز نے ۸/ ستمبر کو دیا۔ اس روز ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (عاصمہ جہانگیرفیم) عورت فاؤنڈیشن اور دیگر تنظیموں نے جن کی تعداد ان کے اپنے دعوے کے مطابق ۳۰ بنتی ہے، پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ ترتیب دیا اور حدود آرڈیننس کی فوری تنسیخ کا مطالبہ کیا۔ مظاہرہ کی قیادت حنا جیلانی، شہلا ضیا، فرزانہ باری اور شہناز بخاری نے کی۔ مظاہرے میں عیسائی خواتین نے بھی بڑی تعداد میں جوش و خروش سے حصہ لیا۔ یہ خواتین بڑھ چڑھ کر ’حدود آرڈیننس منسوخ کرو‘ اور ’حدود آرڈیننس نامنظور‘ کے نعرے لگا رہی تھیں ۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے مرد و زَن کارکن بھی مظاہرے میں بطورِ کمک شریک ہوئے۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کے رکن ِاسمبلی کنور خالد یونس بھی موجود تھے۔ یاد رہے کہ انہی رکن اسمبلی نے قومی اسمبلی میں ’توجہ دلاؤ نوٹس‘ پیش کیا تھا جس میں حدود آرڈیننس پر ویمن کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے بعد اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اس مظاہرے کے دوران وزیراعظم میرظفر اللہ خان جمالی جو ادھر سے کار پر گزر رہے تھے ’اتفاق سے‘ رک گئے۔ انہوں نے پرجوش مظاہرین کو حرفِ تسلی دیتے ہوئے کہا کہ حکومت حدود آرڈیننس میں تجویز کردہ ترامیم کے بارے میں نیشنل کمیشن برائے اُمورِ خواتین کی