کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 41
پاتا ہے۔ لیکن عشق الٰہی کے تصور کی نہ تو کوئی متعین سند ہے کہ جس کی طرف اس کے سمجھنے کے لئے رجوع کیا جاسکے، نہ ضبط ِالفاظ کے ذریعے اس کی کوئی مستند ترجمانی ہمارے سامنے موجود ہے۔ جس چیز کو ’علم سینہ‘ کہا جاتاہے وہ بھی محض ’احساسِ سینہ‘ ہے جو الفاظ و عبارات کی دسترس سے بڑی حد تک باہر ہے۔ علاوہ ازیں سینوں کے احساسات اور دلوں کے جذبات بھی تو یکساں نہیں ہوتے۔ اس لئے جس تصورِ تزکیہ کا سرچشمہ احساسات و جذبات ہوں ، اس کے بارے میں کوئی اطمینان توکیا، یہ خیال بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اس کی حقیقت اور صورت عام اتفاقِ رائے کے ساتھ بالکل ایک ہوگی۔ کیونکہ ایسا خیال کرنا گویا یہ مان لینا ہے کہ مختلف انسانوں کے جذبات و احساسات اور ذوق و وجدان لازماً یک رنگ ہوتے ہیں جو کہ ایک غلط مفروضہ ہے۔(۱۰)
مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں :
’’یہ محبت ہے جس کا دین میں اعتبار اور جس پر آدمی کے اُخروی مراتب کا انحصار ہے، اس کو جانچنے اور پرکھنے کے لئے خود قرآن نے ایک واضح کسوٹی بھی مقرر کر دی ہے جس پر ہر مدعی کو آپ جب چاہیں ، جانچ سکتے ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو اپنے زعم میں محبت کے زیر اثر گریباں اور دامن چاک کرکے برہنہ سر اور برہنہ پا گھروں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور صحراؤں کی خاک چھانتے پھرتے ہیں تو ان کی محبت کو پرکھنے کے لئے ہمارے پاس کوئی کسوٹی نہیں ہے اور یہ کہنا بھی ہمارے لئے مشکل ہے کہ فی الواقع یہ عشق الٰہی ہے یا عشق لیلیٰ ہے یا محض خلل دماغ ہے۔‘‘ (۱۱)
جب حقیقت ِحال یہ ہے تو یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ اس تصورِ تزکیہ کے اندر قرآنی تصورِ تزکیہ کی سی شانِ انضباط پیدا ہوسکتی ہے اور اس طرح اس کے سارے ہی عملی تقاضوں کو قطعیت کے ساتھ متعین کیا جاسکتا ہے۔
قرآنی دلائل اور اکابرین اُمت کی مذکورہ آرا کی روشنی میں عشق الٰہی کے تصور پر وارد ہونے والے اعتراضات کا خلاصہ یہ ہے :
(۱)لفظ عشق قرآن و حدیث میں استعمال ہی نہیں ہوا۔
(۲)لفظ عشق ایک غیر متوازن کیفیت پر دلیل ہوتا ہے۔