کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 40
(۲)دوسری یہ کہ عشق انسان کو اجتماعیت گریز اور سخت قسم کا انفرادیت پسند بنا دیتا ہے حتیٰ کہ انفرادیت سے بھی پاک ہوکر انسان اپنے محبوب و مقصود کے سوا خود اپنے سے بھی بے خبر ہو رہتا ہے۔
(۳)تیسری یہ کہ عشق کے تسلط کے بعد انسان کے اندر سے توازن و اعتدال پسندی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ عشق کا معمول ایک زبردست انجذابی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے۔ یاد محبوب اسے یوں اپنی طرف کھینچتی ہے کہ اگر وہ گردوپیش کی صداؤں پر کان دھرنا بھی چاہے تو ایسا نہیں کرسکتا۔
(۴)چوتھی یہ کہ مبتلاے عشق انسان آداب و رسوم اور ضوابط کا پابند نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اس کے دل و دماغ اور فکر و احساس سبھی پر محبوب کا دلآویز تصور چھایا رہتا ہے جب اسے باہر کی دنیا سے کوئی سروکار ہی نہیں تو وہ آداب و رسوم شرعی اور ضوابط و قوانین کو کیا جانے۔(۹)
عشق کے اس مزاج کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جس تصورِ تزکیہ کی بنیاد عشق الٰہی پر ہوگی، اس کا مزاج کیا ہوگا۔ عشق کا یہ فطری مزاج قرآن میں بیان کردہ اجتماعی احکامات سے قطعی طور پر متصادم ہے۔ قرآنی ہدایت ہمہ گیر نوعیت کے احکام و مسائل پر مبنی ہے۔ احکامِ قرآنی کی یہ نوعیت تصورِ تزکیہ کو عشق الٰہی پر مبنی خیال کرنے کے خلاف ہے۔ کیونکہ عشق الٰہی کی تو عین فطرت میں یہ شامل ہے کہ انسان دنیا و مسائل دنیا سے یکسر بے تعلق ہوجائے حتیٰ کہ خود اپنے وجود کے احساس سے بھی اونچا ہو رہے۔
(۳) عملی تقاضے
تیسرا سوال عشق کے عملی تقاضوں سے متعلق ہے۔ عشق الٰہی پرمبنی تصورِ تزکیہ کے عملی تقاضوں کا ہم قطعیت کے ساتھ تعین نہیں کرسکتے (جبکہ قرآنی تصور تزکیہ کے تقاضے ہم ’حب ِ الٰہی کا عملی مفہوم‘ کے تحت بیان کرچکے ہیں )۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف اسی فکر کے عملی تقاضے قطعیت سے متعین کئے جاسکتے ہیں جو خود بھی متعین، منضبط اور قطعی حیثیت رکھتی ہو۔ جو محسوساتِ ذہنی کو دوسروں تک پہنچانے کے معروف اور فطری اُسلوب سے بیان کی جاسکتی ہو۔ جیسا کہ قرآنی تصور اپنی مضبوط اور منضبط بنیادوں پر استوار ہونے کی وجہ سے ’کلامِ مبین‘ قرار