کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 4
گرانٹس کمیشن میں عورتوں کو ایک تہائی نمائندگی دی جائے۔
حکومت اور ویمن کمیشن اس بل کو کتنی سنجیدگی سے لے رہے ہیں ،اس کا اندازہ اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں منعقد ہونے والی ایک پریس کانفرنس سے لگایاجاسکتا ہے۔ یہ پریس کانفرنس پیپلزپارٹی، پٹریاٹ کی جانب سے بلائی گئی تھی اور اس میں محترمہ شیری رحمن نے حدود آرڈیننس کی تنسیخ اور پاکستانی خواتین کو قانونی طور پر طاقتور بنانے کے لئے اپنے پیش کردہ بل کو ذرائع ابلاغ میں متعارف کروایا۔ اس موقع پر ویمن کمیشن کی چیئرپرسن جسٹس (ر) واجدہ رضوی بھی موجود تھیں ۔ لیکن جب صحافیوں نے ان کی موجودگی کو ریکارڈ پر لانے کے لئے ان سے حدود آرڈیننس پر اُن کی سفارشات کے بارے میں سوالات کا سلسلہ شروع کیا اور اسلامی تاریخ سے ان قوانین پر عمل درآمد کے بارے میں مثالیں دیں تو انہوں نے فرمایا کہ ایسی معدودے چند مثالیں مستثنیات کا درجہ رکھتی ہیں اور انہیں باقاعدہ قانونی روایت سمجھنا درست نہیں ہے۔
اس مرحلے پر مناسب محسوس ہوتا ہے کہ ویمن کمیشن کی سفارشات پر عوامی ردّعمل اور محسوسات کا ایک اجمالی جائزہ لے لیا جائے تاکہ پاکستان کے عوام کے خیالات، احساسات اور حدود قوانین سے متعلق ان کے تاثرات کا ایک عکس قارئین کے سامنے آسکے …
حدود آرڈیننس کی تنسیخ سے متعلق قومی کمیشن برائے خواتین کی سفارشات کے خلا ف اسلام آباد میں ۵ ستمبر کومتحدہ مجلس عمل کی خواتین ارکان پارلیمنٹ نے مظاہرہ کیا۔ مجلس عمل کی بڑی جماعتوں میں جمعیت علماے پاکستان، جمعیت علماے اسلام اور جماعت ِاسلامی شامل ہیں ۔ مجلس عمل پارلیمنٹ میں حکومتی جماعت کے بعد سب سے بڑی پارٹی ہے۔ مجلس عمل کی خواتین ارکانِ پارلیمنٹ نے قومی کمیشن برائے خواتین کی سفارشات کو قرآن و سنت اور پاکستان کے آئین کے منافی اور ناقابل عمل قرار دیا۔ ان ارکانِ پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا کہ حدود آرڈیننس کے خاتمے کے بجائے اس میں موجود ابہام کو ختم کیا جائے۔ اس موقع پر جماعت ِاسلامی، حلقہ خواتین کی جانب سے پارلیمنٹ ہاؤس کے برابر ایک احتجاجی مظاہرے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اسی روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی پارٹی کے رکن اسمبلی کنور خالد یونس نے حدود آرڈیننس سے متعلق سفارشات پر عمل درآمد کے لئے ایک ’توجہ دلاؤ‘ نوٹس پیش کیا جس پر مجلس عمل کی خواتین نے ڈیسک بجا کر اس نوٹس پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔