کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 39
(۱) سرچشمہ
پہلے سوال کا منفی جواب تو پیچھے گذر چکا ہے کہ اس تصورِ تزکیہ کا سرچشمہ قرآن وحدیث نہیں ہے۔ یہ معلوم ہونے کے بعد کہ اس کا ماخذ وحی الٰہی نہیں ہے، ہمارے سامنے یہ حقیقت ایک مثبت جواب بن کر سامنے آتی ہے کہ تزکیہ کا یہ تصور انسانی ذہن کی ایجاد اور اس کے اپنے ہی افکار و جذبات کی پیداوار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دین میں بدعت و ضلالت کے دروازے کا کھلنا تصورِ عشق کا لازمی نتیجہ ہے۔
(۲) فطری مزاج
جس تصورِ تزکیہ کی بنیاد عشق ہو، اس کا مزاج بھی عقل و بصیرت کا نہیں بلکہ وہی ہوگا جو عشق کا مزاج ہے۔ اس لئے عشق الٰہی پر مبنی تصورِ تزکیہ کا فطری مزاج معلوم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ پہلے خود نفس عشق کا مزاج سمجھ لیا جائے۔ سید اسمٰعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ حقیقت ِعشق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’عشق سے مراد وہ بے قراری و شوریدگی ہے جو اپنا مطلوب و مقصود حاصل نہ ہونے کے باعث انسان کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اور پیدا ہوکر تمام باطنی قوتوں میں سرایت کرجاتی ہے اور اس کی غایت مقصود تک رسائی اور وصالِ محبوب ہے۔ اوّلاً عشق کا مقام قلب ِانسانی ہوتا ہے پھر وہ پھیل کر تمام باطنی قوتوں پر چھا جاتا ہے اور ا س کی غایت یہ ہے کہ انسان اپنے محبوب و مطلوب کی یافت میں محو اور اپنے سے بے خبر ہورہے۔‘‘ (۸)
سید شہید رحمۃ اللہ علیہ کے اس بیان سے مزید عشق کی حسب ِذیل خصوصیات متعین ہوتی ہیں :
(۱)پہلی یہ کہ بارگاہِ عشق میں عقل و دانش کو کسی طرح رسائی حاصل نہیں ہوسکتی، کیونکہ باطنی شورش، اضطراب اور تعقل میں کھلا ہوا تضاد ہے جس کسی کے اندروں میں ہرچہار طرف بے قراری چھائی ہوگی وہ عقل کو اپنے قریب ہرگز نہ آنے دے گا اور اگر آنے دے گا بھی تو صرف اس صو رت میں کہ وہ اپنے وظیفہ حیات سے دستبردار ہوچکی ہو اور کسی بات پر بھی ’کیوں ‘ اور ’کیا‘ کی گستاخی نہ کرتی ہو بلکہ ہر اداے عشق پر منطق و استدلال کی چھاپ بے تکلف لگانا اپنا فرض سمجھتی ہو۔