کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 38
حب ِالٰہی کا بصیغہ امر ذکر نہ کرنے میں قرآنی حکمت و احتیاط
قرآنِ حکیم نے دوسری صفاتِ ایمان کے متعلق صاف طور سے امر و حکم کی زبان استعمال کی ہے لیکن عشق الٰہی تو کجا خود حب ِالٰہی کی تمام تر دینی اہمیت کے باوجود بھی اس کا بصیغہ امر کہیں ذکر نہیں کیا۔ اس کی وجہ ہمیں دینی مصالح، قرآنی حکمت ِکلام، لفظ محبت کے معنوی ابہامات اور تاریخ ِمذاہب میں ملے گی۔ حدو دِ محبت جس طرح عشق سے ملی ہوئی ہیں ، عام لوگ عشق و محبت کے الفاظ کو جس طرح بالکل ہم معنی سمجھ بیٹھے ہیں ، پیروانِ مذاہب عشق اور محبت کے نازک مگر دور رَس نتائج پیدا کرنے والے فرق کو جس طرح نظر انداز کرکے مزاج ومقصد ِدین کو کچھ سے کچھ بنا دیتے ہیں ، ان سب باتوں پرنظر ڈالنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ ایسا دین کے حقیقی تصور اور غایت تزکیہ کے تحفظ کی خاطر کیا گیا ہے۔ جیساکہ مولانا صدر الدین اصلاحی فرماتے ہیں :
’’دین میں حب ِالٰہی کا تقاضا تو یہی تھا کہ اس کا صریح انداز میں اہل ایمان کو حکم دیا جاتا لیکن پچھلی تاریخ مذاہب کو دیکھتے ہوئے قوی اندیشہ تھا کہ اگر ’اُعْبُدُوْا ﷲَ ‘ اور ’اَطِیْعُوْ ﷲ‘ کی طرح ’اَحِبُّوْا ﷲ‘ بھی فرمایا گیا تو پیروانِ قرآن کے لئے بھی کہیں اس طرح کی غلط فہمی میں پڑ جانے کی وجہ نہ پیدا ہوجائے جس طرح کی غلط فہمی میں پچھلے مذاہب والے پڑتے رہے ہیں اور کہیں وہ بھی پہلے قدم پر تو محبت ِالٰہی کو اور پھر عشق الٰہی کو دین کا بنیادی تصور نہ سمجھ بیٹھیں ۔‘‘(۷)
حب ِالٰہی کی عظیم اہمیتوں کے باوجود قرآنِ حکیم کی اس غیرمعمول احتیاط سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کو عشق الٰہی پر مبنی تصورِ تزکیہ سے کتنا بُعد ہے۔ عشق الٰہی پر مبنی تصورِ تزکیہ کے متعلق سلبی پہلو سے ضروری واقفیت حاصل کرلینے کے بعد ہمیں عشق کے بارے میں تین بنیادی سوالات کاجواب ایجابی پہلو سے معلوم کرنا ہوگا :
ا۔ اس تصورِ تزکیہ کا سرچشمہ کیا ہے؟
ب۔ اس کا فطری مزاج کیا ہے؟
ج۔ اس کے بنیادی عملی تقاضے کیا ہیں ؟