کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 37
کرنے کے لئے اللہ کی بلا استثنا ان تمام قسم کی صفات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ اگرکوئی شخص ان ساری صفات کو اپنے قلب و ذہن میں جگہ دینے کی بجائے ان میں سے کچھ خاص صفات کا انتخاب کرلیتا ہے اور صرف انہی کی بنیاد پر اللہ کا تصور قائم کرتا ہے تو یہ تصور بالیقین ایک ناقص اور غلط تصور ہوگا۔ مثلاً بعض مذاہب کا یہ تصور کہ خدا صرف رحمت و محبت ہے، قرآنی نقطہ نظر سے یکسر قابل ردّ ہے۔
صفاتِ الٰہی سے متعلق ان مسلمہ حقیقتوں سے اللہ تعالیٰ کی وہ حیثیت، جس کا اپنی اس کائنات کے مقابلے میں وہ فی الواقع مالک ہے، منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں سے واضح اور متعین ہوجاتی ہے۔ منفی طور سے یہ کہ یہ حیثیت ’معشوق‘ کی نہیں ہے اور مثبت طو ر سے یہ کہ یہ حیثیت انتہائی محبوب آقا و فرماں رواے مطلق کی ہے کیونکہ جب صفاتِ الٰہی میں معشوقیت سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو ا س کے معشوق قرا رپانے کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہ جاتا۔
جب یہ بنیادی بات معلوم ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ کی اصل مشیت فی الواقع کیا ہے تو اب دوسری بات بھی نامعلوم نہیں رہ گئی کہ اللہ اور انسان کے درمیان اصل تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ اللہ جن ’جلالی‘ اور ’جمالی‘ دوگونہ صفات سے متصف ہے، ان سے قدرتی طور پر یہ نوعیت انتہائی محبوب آقا اور مکمل باوفا غلام، حقیقی فرمانروا اور اطاعت گزار رعیت ہی کی ہوسکتی ہے۔
جب اللہ تعالیٰ کی اصل حیثیت اور انسانی سے اس کے تعلق کی اصل نوعیت معلوم و متعین ہوگئی تو قرآن کے تصورِ تزکیہ کا مسئلہ بھی خود بخود حل ہوگیا۔ کیونکہ ان دونوں حقیقتوں کی موجودگی میں تزکیہ کا وہ تصور پروان چڑھ ہی نہیں سکتا جس کی بنیاد عشق الٰہی پررکھی گئی ہو۔ بلکہ وہ تصور ہی نشوونما پائے گا جو اللہ کی مکمل اور والہانہ اطاعت اور محبت آمیز عبادت پر مبنی ہوگا۔
سورۃ الذاریات کی آیت ۵۶ ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ﴾میں انسان کا مقصد ِتخلیق ’عبادت‘ بتایا گیا ہے۔ یعنی اللہ کے حضور ظاہراً و باطناً جھکنا اور جذبہ اخلاص و تذلل کے ساتھ احکامِ الٰہی کی پابندی۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ قرآنی تصورِ تزکیہ عشق الٰہی والانہیں ہوسکتا کیونکہ یہ بات سراسر نامعقول ہے کہ تخلیق انسان کامقصد کچھ اور ہو اور اسے عطا کئے جانے والا تصورِ تزکیہ اور نوعیت کا ہو…!!