کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 3
قانونی بل قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں داخل کیا، جس میں دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ حدود قوانین کے خاتمے کی شق بھی شامل ہے۔ دیگر باتوں میں مندرجہ ذیل اُمور شامل ہیں :
1. فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور صوبائی سروس کمیشنوں کو ہدایت کی جائے کہ وہ ملازمتوں میں خواتین کی ۳/۱ نمائندگی کو یقینی بنائیں اور یہ قانون یکم جنوری ۲۰۰۵ء سے مؤثر اور نافذ کیا جائے۔
2. ایک جیسی ملازمت میں جنس کی بنیاد پر تنخواہ کا فرق ختم کیا جائے کیونکہ یہ عمل عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔
3. خواتین پر گھریلو تشدد اور جسمانی ایذا رسانی کو تعزیراتِ پاکستان کے تحت قابل سزا قرار دیا جائے اور جو شوہر اپنی بیوی سے ایسا سلوک روا رکھیں ، انہیں تین سال قید اور پانچ لاکھ تک جرمانہ کی سزائیں دی جاسکیں ۔
4. قتل ِغیرت کو عام قانون کے مطابق قتل عمد تصور کیا جائے اور یہ جرم کرنے والوں کو سزاے موت کی سزا دی جائے۔
5. ہر عورت کو اپنی مرضی کی شادی کرنے کا حق تسلیم کیا جائے، اور اگر کوئی شخص ایسی شادی میں رکاوٹ بن رہا ہو، دباؤ ڈال رہا ہو یا زبردستی کررہا ہو تو اسے مجرم قرار دیتے ہوئے ایک سال تک کی سزائے قید دی جائے اور جرمانہ عائد کیا جائے۔
6. اگر کوئی عورت چولہے سے آگ لگنے کے سبب فوت ہوجائے تو اس کے خاوند کے خلاف اسے جان سے مارنے کا مقدمہ درج کیا جائے۔ اگر حادثے کے وقت خاوند گھر میں موجود نہ ہو تواس خاندان کے مرد سربراہ پر یہ مقدمہ چلایا جائے اور اسے وہی سزا دی جائے تو قتل کے جرم پر دی جاتی ہے۔
7. ہر جیل میں عورتوں کے لئے بالکل علیحدہ حصہ بنایا جائے۔ جس کا انتظام و انصرام بھی مکمل طور پر عورتوں کے ہاتھ میں ہو اور عورتوں کے معاملات کو چلانے کے لئے علیحدہ خاتون انسپکٹر جنرل پولیس مقرر کی جائے۔ جسے وہی اختیارات حاصل ہوں جو مرد انسپکٹر جنرل پولیس کو حاصل ہوتے ہیں ۔
8. اسلامی نظریاتی کونسل،پلاننگ کمیشن، بورڈ آف ڈائریکٹرز، پی آئی اے اور یونیورسٹی