کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 29
یہ بات کہ وہ لوگ ہماری عیدوں پر ہمیں مبارک کہتے ہیں تو اس کا تعلق ایسے مواقع پر مبارک باد کہنے سے ہے جن پر اللہ اپنے بندوں پر راضی ہوتا ہے اور اللہ نے ان عیدوں کو جائز قرار دیا ہے۔ جبکہ ہمار ا ان کی عیدوں پر اُنہیں مبارک کہنا اس کے سراسر برعکس ہے ،کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین اسلام کے آجانے سے سابقہ تمام ادیان منسوخ ہوچکے ہیں ۔ اگر وہ اپنی عیدوں پر ہمیں مبارک کہیں تو ہم ان کی مبارک کا جواب نہیں دیں گے، کیونکہ وہ ہماری عیدیں نہیں ہیں او رجب ان کی عیدوں پر مبارک کہنا جائز نہیں تو ان کے ساتھ شرکت کرنا اور ان کے مقاماتِ عید پر جانا بھی جائز نہیں ۔اگرچہ وہ ان کی دعوت پر ہی کیوں نہ ہو اور ایسے امور میں کوئی مروّت جائز نہیں کیونکہ یہ دین میں کمزوری کے مترادف ہوگا۔‘‘
(مزید تفصیل کے لئے دیکھیں : ماہنامہ محدث ، شمارہ ۲۷۳، اکتوبر ۲۰۰۳ء : ص ۲۹،۳۰)
سوال: کراچی میں ایک کمپنی میں میری ملازمت ہے جبکہ میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ رحیم یار خاں میں رہائش پذیر ہوں ۔میری ملازمت کی نوعیت یہ ہے کہ ۷ روزمیری ڈیوٹی کراچی میں ہوتی ہے جبکہ ۷ دن ہی میری چھٹی ہوتی ہے جو میں رحیم یار خاں گزارتا ہوں ۔اب تک میرا معمول تو یہ ہے کہ کراچی میں ، میں قصرنماز پڑھتا ہوں جبکہ رحیم یار خاں میں مکمل نماز ادا کرتا ہوں ۔ یہ قصر نماز قرآن وحدیث کی رو سے درست ہے؟ (محمد ادریس)
جواب :آپ کو کراچی میں بھی اسی طرح پوری نماز پڑھنا ہوگی جس طرح گھر میں ، کیونکہ قصر صرف درج ذیل صورتوں میں جائز ہے :
(i)حالت ِسفر میں (خواہ سفر کا دورانیہ کئی دنوں پر محیط ہو)
(ii)اصلی گھر کے علاوہ کسی اور گھر میں بشرطیکہ وہ گھر کم ا زکم نو میل دور ہو اور وہاں اقامت تین سے چار دن تک ہو۔
(iii)گھر سے باہر اقامت کا تعین مشکل ہوجائے کہ یہاں دو دن ٹھہرنا ہے یا چار دن!
چونکہ آپ کا معاملہ ان میں سے کسی صورت پر بھی منطبق نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ واضح ہے کہ آپ نے کراچی میں سات دن رہنا ہے۔ اگر تین سے چار دن تک رہنے کے بعد واپسی کا سفر ہوتا تو پھر آپ قصر کرسکتے تھے۔ اس سے زیادہ دن رہنے کی نیت ہوتو پھر شروع ہی سے پوری نماز پڑھنا ہوگی۔ (جواب از حافظ مبشرحسین لاہوری)