کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 24
معروف حنفی عالم امام زیلعی رحمۃ اللہ علیہ اورامام مر غینانی مصنف ہدایہ نے بھی یہ حدیث کتاب الصلوٰۃ، باب صفة التشہد میں ذکر کی ہے۔ (دیکھئے نصب الرایہ : ۱/۴۱۹) ’ ہدایہ‘ کی شرح ’کفایہ‘ میں بھی یہ بات وضاحت کے ساتھ مذکور ہے۔ اور اس کے علاوہ دیگر کئی مقامات پر علماء احناف نے اس بات کی صراحت کی ہے۔ (بحوالہ تحفۃ الاحوذی: ۷/۴۲۹) (۲)خود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کررہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیاہوا تھا اور تشہد کے الفاظ سکھا رہے تھے۔ (۳)اگر اس حدیث کو مصافحہ کی کیفیت کے لئے بطورِ دلیل تسلیم کرلیاجائے تو یہاں جو حالت بیان ہورہی ہے اس کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہاتھ ہیں اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ ہے۔ لہٰذا شان و مرتبہ کے لحاظ سے بڑے آدمی کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ دو ہاتھوں سے مصافحہ کرے اور چھوٹاآدمی ایک ہاتھ سے مصافحہ کرے تاکہ حدیث ِمبارکہ پر سو فیصد عمل کیا جاسکے۔ (۴)اگر اس حدیث کو مصافحہ کی دلیل بنائے جانے پر زور دیا جائے تو اسی سیاق کی حدیث مسنداحمد میں موجود ہے جس میں ایک ہاتھ کا ذکر ہے۔ حضرت ابوقتادہ اور دیگر صحابہ کا بیان ہے کہ ہم ایک شخص کے پاس آئے جو دیہات کا رہنے والا تھا۔اس نے ہمیں خبر دی کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اس علم سے کچھ سکھلانے لگے جو علم اللہ جل شانہ نے ان کو عطا فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تو اللہ تعالیٰ کے خوف سے کوئی چیز چھوڑ دے گا، تو اللہ تعالیٰ تجھے اس سے کہیں بہتر بدلہ دے گا۔‘‘ (مسنداحمد:۲۰۶۲۴ ) (۵)آپ پہلے احادیث میں مصافحہ کی کیفیت پڑھ آئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا کہ وہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے تھے۔ یہ احادیث مستقل اسی مسئلہ کے ساتھ خاص ہیں ان کو چھوڑ کر اس حدیث کو دلیل بنانا صحیح نہیں جو اس بحث سے تعلق نہیں رکھتی ہے۔ ٭ دلیل نمبر۲ :دوسری دلیل کے طور پر صحیح بخاری کی یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ :