کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 23
کہلائے گا۔ اگر دو ہاتھوں سے مصافحہ کیا جائے تو ہر دو افراد کی ایک ایک ہتھیلی ہاتھ کی پشت سے ملتی ہے جو الصفحۃ ہتھیلی سے ہتھیلی لگنے کے زمرے میں نہیں آتی۔
(۱)عربی لغت کی کتابوں سے مصافحہ کا مطلب اس طرح ہے :
لسان العرب میں ہے کہ’المصافحة: الأخذ بالید۔ والرجل یصافح الرجل إذا وضع صفح کفہ فی صفح کفہ (۲/۵۱۴)
’’ مصافحہ ہاتھ پکڑنے کوکہتے ہیں ۔ جب آدمی کسی دوسرے سے مصافحہ کرتا ہے تو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو اس کے ہاتھ کی ہتھیلی میں رکھ دیتا ہے۔‘‘
(۲)معجم الوسیط میں ہے کہ مصافحہ سے مراد یہ ہے کہ اپنی ہتھیلی کو دوسرے کی ہتھیلی پر رکھے۔ (۱/۵۱۹)
(۳)المنجد میں بھی مصافحہ کے معانی ’ہاتھ ملانا‘ کے ہیں نہ کہ دونوں ہاتھ ملانا۔(۵۶۹)
الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین، صحابہ کرام کا عمل، علما کی تشریحات اور کتب ِلغت اس بات پر گواہ ہیں کہ مصافحہ دائیں ہاتھ سے ہونا چاہئے، یہی سنت طریقہ ہے۔ اب ہم بالاختصار ان دلائل کا جائزہ لیتے ہیں جن کی بنا پر دو ہاتھوں سے مصافحہ کرنے پر زور دیا جاتا ہے :
دو ہاتھوں سے مصافحہ کے دلائل اور جائزہ
٭ دلیل نمبر۱: دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کے قائلین کے ہاں مضبوط ترین دلیل یہ حدیث ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
علمنی النبي صلی اللہ علیہ وسلم وکفی بین کفیہ التشہد: التحیات ﷲ الصلوات والطیبات… الحدیث (۱۴/۶۴)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھلایا، اس حال میں کہ میری ہتھیلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو ہتھیلیوں میں تھی: التحیات ﷲ والصلوات والطیبات… ‘‘
جائزہ :یہ حدیث مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر مذکورہ مسئلہ کی دلیل نہیں بن سکتی :
(۱) یہ حدیث ملاقات کے وقت مصافحہ سے متعلق نہیں بلکہ یہ تعلیم کے اہتمام سے تعلق رکھتی ہے۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو تشہد کی تعلیم دے رہے تھے اور مزید عنایت و مہربانی کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔