کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 22
ایک حدیث بھی کافی ہوتی ہے مگر احادیث ِمبارکہ کے ذکر کے ساتھ ساتھ ہم بالاختصار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور علماء کرام کی وضاحت پیش کررہے ہیں ، اُمید ہے کہ یہ وضاحت قارئین کے لئے مزید تشفی کا باعث ہوگی۔ ان شاء اللہ !
(۱) أن أنسا کان إذا أصبح دَہَنَ یَدَہُ بدھن طیب لمصافحۃ إخوانہ
’’بے شک حضرت انس رضی اللہ عنہ صبح کے وقت اپنے ہاتھ کو خوشبو لگا لیتے تھے کیونکہ اس ہاتھ سے وہ اپنے رفقا سے مصافحہ کیا کرتے تھے۔‘‘ (أدب المفرد للبخاری ص ۳۶۵ وصححہ الألبانی)
(۲) حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کا عمل آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ انہوں نے ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ہاتھ پکڑ کر مصافحہ کیا اور مسکرانے لگے۔(حدیث ۵)
(۳) حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ اپنی ہتھیلی لوگوں کو دکھایا کرتے تھے کہ اس سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کیا کرتے تھے۔ (حدیث ۹)
مصافحہ کے متعلق علماے کرام کی وضاحت
(۱)فتح الباری جیسی عظیم کتاب کے مصنف حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ مصافحہ یہ ہے کہ ایک ہاتھ کی ہتھیلی کو دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی سے ملایا جائے۔‘‘ (فتح الباری:۱۴/۶۴)
(۲)ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں مصافحہ کا ذکر ہے اور وہ یہ ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی کے ساتھ ملایا جائے ۔ (النہایہ فی غریب الحدیث والاثر:۳/۲۴)
(۳)حضرت سید عبد القادر جیلانی غنية الطالبین میں ، اور علامہ علقمی کوکب المنیرمیں ، علامہ علی احمد عزیز سراج المنیرمیں ، معروف حنفی عالم ملا علی قاری مرقاۃ المفاتیح میں ، علامہ مرتضیٰ زبیدی حنفی تاج العروس میں ، علامہ عبد الرؤف رحمۃ اللہ علیہ آف قاہرہ روض النضیر میں اور دیگر علماء احناف اپنی معتمد کتابوں میں صرف ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کا طریقہ نقل کر چکے ہیں ۔(تفصیل کے لیے دیکھئے :تحفۃ الاحوذی:۴/۴۳۰)
عربی زبان اور لفظ ’مصافحہ‘ کی تشریح
لغت عرب میں ید الصفحة ’ہاتھ کی ہتھیلی‘ کو کہتے ہیں اور لفظ مصافحہ باب مفاعلہ سے ہے جو مشارکت کا تقاضا کرتا ہے۔ گویا کہ دو ہتھیلیوں کا اس عمل میں شریک ہونا ہی مصافحہ