کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 20
(۱۲) حضرت ابو ذرّ سے پوچھا گیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی آدمی ملتے تو مصافحہ کے لیے اس کا ہاتھ پکڑتے تھے ؟انہوں نے جواب دیا ’’مجھے جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ملتے تومیرا ہاتھ پکڑ لیتے تھے۔‘‘ (ایضا :۸۹۶۰) مذکورہ احادیث کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ مصافحہ ایک ہاتھ سے ہی سنت ہے۔ کیونکہ تمام احادیث میں لفظ ’ید‘ (ہاتھ) واحد استعمال ہوا ہے جس طرح خط کشیدہ الفاظ پر غور کرنے سے پتہ چل جاتا ہے۔ اگر مصافحہ دو ہاتھ سے ہوتا تو لفظ ’ید‘ کی بجائے (یدین، دو ہاتھ) استعمال ہوتا مگر ایسا نہیں ہے۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت اور مصافحہ آپ ان احادیث کا مطالعہ کرچکے ہیں جن میں ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کی وضاحت ہے۔ یہاں چند ان احادیث کا ذکر بھی قابل مطالعہ ہے جن میں بیعت کی غرض سے مصافحہ کرنے کا ذکر ہے۔ رسولِ اکرم1 لوگوں سے بیعت لیتے وقت بھی داہنا ہاتھ ہی مصافحہ کے لئے بڑھاتے تھے۔ معلم کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیعت کے لئے مصافحہ کا لفظ استعمال کیا ہے گویا کہ بیعت اور مصافحہ کی کیفیت تقریباً ایک جیسی تھی، اگرچہ یہ احادیث مصافحہ کے باب سے نہیں ہیں : (۱)عن أمیمۃ بنت رقیقۃ أنھا دخلت فی نسوۃ تبایع فقلن: یارسول ﷲ أبسط یدک نصافحک، فقال: إنی لا أصافح النسائ))(فتح الباری، تفسیر سورۃ الممتحنہ:۱۰/۸۲۲) ’’حضرت امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ دیگرعورتوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کے لئے حاضر ہوئیں ۔ ان کا بیان ہے کہ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنا ہاتھ آگے کیجئے تاکہ ہم آپ سے مصافحہ کرسکیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کیاکرتا۔‘‘ یہی مضمون موطأ امام مالک، سنن نسائی (باب بیعت) میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ امام عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’تمہید‘ میں اسی حدیث کی تشریح میں رقم طراز ہیں (( إني لا أصافح النسائ)) اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں سے بیعت کے وقت مصافحہ کرتے تھے۔ (۲) حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہونے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں