کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 2
کتاب: محدث شمارہ 276 مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور ترجمہ: بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکرو نظر حدود قوانین کا بدستور نفاذ یا استرداد! ۲۰۰۳ء میں وطن ِعزیز کو جہاں آئین اور جمہوریت کے حوالے سے گونا گوں صدمات برداشت کرنا پڑے، وہاں پاکستان میں ۱۹۸۰ء کی دہائی میں نافذ ہونے والے اسلامی قوانین پر بھی مغرب نواز حلقوں کی جانب سے حکومتی سطح پر نفوذ کرنے اور ان قوانین کو ختم کروانے کی مؤثر کوششیں کی گئیں ۔ ان کوششوں اور دباؤ کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے ’نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن‘ کی چیئرپرسن جسٹس (ر) واجدہ رضوی کو حدود قوانین کا جائزہ لینے اور سفارشات مرتب کرنے کا فریضہ سونپا۔ اس کمیشن کے ارکان کو نامزد کرنے کا اختیار بھی جنرل پرویز مشرف کو حاصل تھا۔ کمیشن نے حدود قوانین کااپنے طور پر جائزہ لیا اور حکومت کو سفارش کی کہ ان قوانین میں تبدیلیوں یا ترمیمات سے عورتوں کے حقوق پر پڑنے والے اثرات ختم نہیں ہوسکتے، اس لئے ان قوانین کو سرے سے ختم کردینا مناسب ہے۔ کمیشن کے صرف دو ارکان نے اس سفارش کی مخالفت کی اور اس میں مناسب ترامیم کو ممکن قرار دیا۔ ویمن کمیشن کی سفارشات پریس میں آتے ہی ملک بھر میں ان سفارشات کے خلاف ردّعمل ظاہر ہونا شروع ہوا اور اس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ جسٹس (ر) واجدہ رضوی اس ردّعمل پر اپنا جوابی ردّ عمل نہایت سخت الفاظ میں ظاہر رہی ہیں اور اسی بات پر مصر ہیں کہ حدود قوانین سراسر غیر اسلامی ہیں اور انہیں کوئی وقت ضائع کئے بغیر قلم زد کردینا چاہئے۔ (روزنامہ ’نیشن‘: ۱۶/اکتوبر ۲۰۰۳ء) بلوچستان سے صوبہ سرحد تک کمیشن سفارشات کی مخالفت کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ بعض حکومتی حلقے حدود قوانین کو ختم کرنے کی طرف پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کی ایک رکن قومی اسمبلی شیری رحمن نے Protection & Empowerment of Women Act, 2003 کے نام سے ایک