کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 16
کو مدنظر رکھیں ۔
اس موضوع پر قلم اٹھانے کا مقصد یہ نہیں کہ اختلافی مسائل کی فہرست میں اضافہ کردیا جائے یا پھر کسی خاص طبقہ فکر کو نشانہ بنا کر کیچڑ اُچھالا جائے بلکہ اس پر لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ لاتعداد مسلمان بھائی جہالت، تعصب یا ادب کے نام پر مصافحہ کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہیں ،جبکہ اس موضوع پر بعض علما نے قابل تحسین رہنمائی بھی کی ہے۔ علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی میں اس موضوع پر بہت خوبصورت بحث کی ہے۔
ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم ہر مسئلہ کو قرآن و سنت کی بنیاد پر سمجھنے کی کوشش کریں ، لہٰذا مصافحہ کا مسنون طریقہ دلائل کی روشنی میں پیش خدمت ہے۔
مصافحہ کی کیفیت
ایک مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو السلام علیکم ورحمة ﷲ وبرکاتہ کہہ کر اس کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی رکھ کر اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر تھوڑی سی حرکت دے۔ اس کی طرف متوجہ ہوکر، مسکراتے ہوئے پوری گرم جوشی کا مظاہرہ کرے اور جب تک دوسرا بھائی اپنا ہاتھ نہیں کھینچتا، یہ بھی نہ کھینچے۔
افسوس کہ اس سادہ سے عمل کو بھی اپنی اصل شکل پر قائم نہیں رہنے دیا گیا۔ بعض بھائیوں کا کہنا ہے کہ مصافحہ دونوں ہاتھوں سے کیا جانا چاہئے اور بڑے سکون کے ساتھ حرکت دیے بغیر اسی طرح ہاتھ جدا کرلینے چاہئیں ۔ اس دعویٰ کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے، اس کا جائزہ آئندہ سطور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ممتاز علما کے علم و عمل کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے :
کیفیت ِمصافحہ کے متعلق احادیث کا بیان
(۱) عن أنس بن مالک قال قال رجل یا رسولَ ﷲ! الرجلُ منا یلقی أخاہ أوصدیقہ أَیَنْحَنِیْ لہ؟ قال: ((لا))، قال: فیلزمہ وَیُقَبِّلُہُ قال: ((لا))، قال فیأخذُ بیَدہِ ویُصَافِحہ، قال: ((نعم)) (جامع ترمذی؛۸۲۸۲)
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے