کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 15
حدیث وسنت محمد اختر صدیق٭
مُصا فَحہ کا مسنون طریقہ
دنیا میں بسنے والے تمام لوگ اپنے اپنے مذہب، تہذیب و تمدن اور اَطوار و اخلاق کی بنا پر ملاقات کے وقت ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات کا اظہار مختلف انداز میں کرتے ہیں ، اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب پر عمل پیرا افرادسے Good Morning،نمستے، ست سری اَکال،How are you? ، Hello اور Hye وغیرہ کے اَلفاظ سننے کو ملتے ہیں ۔
دین اسلام کی تعلیمات انتہائی اعلیٰ اور ممتاز ہیں ، اسلام نے ملاقات کے وقت السلام علیکم ورحمۃ ﷲ وبرکاتہ اور جواباً وعلیکم السلام ورحمۃ ﷲ وبرکاتہ کہنے کا حکم دیا ہے۔ یہ الفاظ اتنے پیارے اور اہم ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ایک مسلمان کا دوسرے پر حق ہے کہ وہ اس کے سلام کا جواب دے۔‘‘ (صحیح بخاری؛۱۲۴۰)
یہ الفاظ جہاں اللہ جل شانہ کی رحمت طلب کرنے کے لئے دعائیہ کلمات ہیں ، وہاں آپس میں محبت و اُخوت بڑھانے کا ذریعہ اور اجنبیت کو ختم کرنے کا بھی باعث ہیں ۔ یہی وہ الفاظ ہیں کہ اگر ان کو سنت کے مطابق پورا پورا ادا کیا جائے تو سلام و جواب کے بدلہ میں دونوں مسلمان کم از کم تیس نیکیوں کے حقدار ٹھہرتے ہیں اور اگر ان کلمات کے ساتھ مصافحہ کا مسنون عمل وقوع پذیر ہوجائے تو دونوں کے گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بن جاتا ہے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حیاتِ درخشاں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ سلام اور مصافحہ کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے حتیٰ کہ کتب ِاحادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اگر ان کے درمیان درخت بھی حائل ہوجاتا تو وہ ایک دوسرے کو سلام کہتے۔
مختلف دلائل کے تناظر میں یہ با ت کہی جاسکتی ہے کہ سلام اور مصافحہ انتہائی فضیلت والا عمل ہے اور یہ مسلمان معاشرے کی علامت ہے۔ ہم پر یہ لازم ہے کہ اس کے مسنون طریقہ
٭ فاضل مدینہ یونیورسٹی ....... رکن ریسرچ سیکشن ، مجلس التحقق الاسلامی ، لاہور