کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 14
اسلام اور اسلامی شعائر کو بدنام کرنے اور ان کے بارے میں شکوک و شبہات ابھارنے کا کام کررہی ہیں ۔ یہ کام معاشرے کو وسیع القلب اور روشن خیال بنانے کے نام پر کیا جارہا ہے۔ حدود قوانین کا نفاذ یا استرداد قومی اسمبلی اور سینٹ کی ذمہ داری ہے۔ اور پاکستان کی پارلیمنٹ یہ ذمہ داری حدود آرڈیننس کے نفاذ کے وقت ۱۹۸۱ء میں سال قبل پوری کرچکی ہے۔ جب کہ ۳۷ دن کے طویل بحث مباحثے کے بعد متعلقہ اسلامی ضوابط کو باقاعدہ قانون کی شکل دی گئی تھی۔ لہٰذا واجدہ رضوی کا یہ کہنا کہ یہ فردِ واحد اور ڈکٹیٹر ضیاء الحق کا نافذ کردہ قانون ہے، بالکل غلط اور خلافِ حقیقت بات ہے!! اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ نئے سال کے آغاز میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت اور دینی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کے تعلقات میں اِفہام و تفہیم پیدا ہوچکی ہے۔ ایم ایم اے پاکستان میں مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کی حامی ہے اور اس میں تمام مکاتب ِفکر کی نمائندگی موجود ہے۔ موجودہ سیاسی حالات بھی کچھ ایسے ہیں کہ ایم ایم اے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس صورت حال میں ایم ایم اے کے شانوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی اور دینی پلیٹ فارموں سے اسلامی قوانین کے حق میں زبردست مہم چلائے اور عوام کو باور کروائے کہ حدود قوانین ان کے لئے مصیبت نہیں بلکہ باعث ِرحمت ہیں اور حکومت پر دباؤ ڈالے کہ وہ آئین کے تحت اس بات کی پابند ہے کہ اسلامی طرزِ معاشرت کو فروغ دے اور حدود قوانین کو تحفظ فراہم کرے۔ حکومت پر بھی لازم ہے کہ وہ ویمن کمیشن کی سفارشات کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کے اسلامی ماہرین (مرد اور خواتین) پر مشتمل ایک وسیع تر کمیشن قائم کرے جو حدود قوانین پر عائد کئے جانے والے اعتراضات کی چھان پھٹک کرے اور قرآن و سنت کی روشنی میں ، جہاں ضرورت ہو، وہاں قانون سازی کے ذریعے Procedural Laws کو ترامیم تجویز کرے۔ بہرحال یہ بات مغرب نواز این جی اوز پر سرکاری طور پر واضح کردینی چاہئے کہ اسلامی قوانین کے استرداد کے سلسلے میں کوئی سمجھوتہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ (ڈاکٹر ظفر علی راجا )