کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 13
سیاسی مفادات کی خاطر عورتوں کے جذبات کو بھڑکارہی ہے۔
2. حدود قوانین کے بے جا استعمال کی ذمہ دار زیادہ تر پولیس ہے۔ لہٰذا ان قوانین کے بارے میں منفی تاثر ختم کرنے کے لئے ان قوانین کے نفاذ میں پولیس کا کردار اور اختیار کم کرنا چاہئے۔
3. حدو د قوانین کے الزام میں ملوث ہونے والی خواتین سے تفتیش اور پولیس کارروائی کی حدود مقرر کی جانی چاہئیں اور متعلقہ پولیس اہلکاروں کو ملزمان سے رابطے اور پوچھ گچھ کے آداب کی باقاعدہ تربیت دی جانی چاہئے۔
4. ملزم عورتوں کو تھانوں میں بلا کر انہیں بے توقیر کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے اور ان کی معاشرتی مجبوریوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔
5. اسلامی قوانین کے نفاذ اور ان پر عمل کے معاملات کو متنازعہ بنانے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ تمام لابیاں جو اسلامی قوانین کے خلاف کام کررہی ہیں ، انہیں اس بات سے روکا جائے۔
اس سیمینار میں اسلامی قوانین کے خلاف کام کرنے والے عناصر کی نشاندہی بھی کی گئی۔ جو کچھ اس طرح سے ہے :
1. غیر ملکی مالی امداد اور اہل مغرب کے نظریات کے مطابق ان کے مقاصد کو فروغ دینے کا ایجنڈا رکھنے والی این جی اوز: جو بیجنگ کانفرنس ۱۹۹۵ء اور بیجنگ پلس کانفرنس نیویارک میں طے پانے والے آزادیٔ نسواں کے چارٹر کو عملی صورت دینے کے لئے سرگرم ہیں ۔
2. غیر مسلم اقلیتیں : جو ملک میں اسلامی قوانین کے بجائے سیکولر قوانین کے نفاذ کے لئے کوشاں ہیں ۔ یہ لوگ اسلامی قوانین کے خلاف عمومی اور حدود قوانین کے خلاف خصوصی طور پر مہم چلا رہے ہیں اور اس مقصد کے لئے انٹرنیٹ اور جدید ذرائع ابلاغ استعمال کررہے ہیں ۔ یہ طاقتیں پاکستان سے وفاقی شرعی عدالت کا وجود ختم کرنے کے لئے بھی سرگرم ہیں اور اسلامی سزاؤں کے خلاف بھی مہم چلا رہی ہیں ۔
3. سیاست کے میدان میں شکست خوردہ سوشلسٹ طاقتیں جو اپنے نظریات کو عوام میں قابل قبول بنانے اور سیاسی طاقت بننے میں ناکام ہوچکی ہیں ۔ اب سماج سدھار میں یہ