کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 12
شرع نے جتنے اُصول اور ضابطے بنائے ہیں جب تک ان کا صحیح اِدراک نہ ہو، اس کی مخالفت میں کھڑے ہونا درست نہیں ہوتا۔ شعائر ِاسلام قرآن پاک سے لئے گئے ہیں اور میں نہیں سمجھتی کہ قرآن پاک میں درج شعائر اسلام پر کوئی اُنگلی اٹھا سکے۔ سماجی حالات ہر ملک کے جدا جدا ہیں ۔ چونکہ اس مسئلہ پر ایک عرصہ سے بحث جاری ہے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ حدود آرڈیننس کے حساس مسئلے کو محض ویمن کمیشن پر نہ چھوڑے۔ عالم اسلام کے بہترین علماے کرام کو اکٹھا کرے اور انہیں زنا آرڈیننس کی ان شقوں پر اجتہاد کی دعوت دے جن کی آڑ لے کر مغرب اسلام کے خلاف پراپیگنڈا کررہا ہے اور جسے خوش کرنے کے لئے ہماری مغرب زدہ خواتین شعائر ِاسلام کی مخالفت کرکے گناہِ کبیرہ کی مرتکب ہورہی ہیں ۔ قومی اسمبلی کی رکن ایم ایم اے، محترمہ سمیعہ راحیل قاضی کا خیال ہے کہ حدود قوانین معاشرے میں تیزی سے فحاشی اور بے راہ روی کو روکنے کے لئے وہی کام کرسکتے ہیں جو دشمن کا دست ِستم روکنے کے لئے ایٹمی طاقت کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دراصل مغرب ایک گہری سازش کے تحت ہمارے خاندانی نظام کو پارہ پارہ کرنا چاہتا ہے اور مرد اور عورت کے درمیان اسلامی حدود اور قیود کو ختم کرکے ایک بے حیا مخلوط معاشرہ قائم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ کسی اسمبلی یا حکمران کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ اسلام کو خدا کی طرف سے عطا کردہ قوانین میں ردّوبدل کرسکے۔ ڈاکٹر اُمّ کلثوم نے اس مسئلہ پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ حدود قوانین پر تنقید کرنے والوں کو مغرب کے اثر سے آزاد ہوکر یہ تجزیہ کرنا چاہئے کہ ان قوانین کا مؤثر نفاذ انسانیت کے لئے کتنا سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔ ۲۳/اکتوبر ۲۰۰۳ء کو جماعت ِاسلامی کی خواتین کی جانب سے لاہور میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ اس سیمینار کا عنوان تھا : ’’حدود قوانین… قابل اصلاح یا قابل استرداد؟‘‘ اس سیمینار کے اختتام پر چند ایک قراردادیں متفقہ طور پر پاس کی گئی۔ اس قرارداد کے اہم نکات حسب ِذیل ہیں : 1. حدود قوانین کے خلاف مہم ایک خاص لابی کی طرف سے چلائی جارہی ہے جو معاشی اور