کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 11
کسی عورت کی پامالی سے روکتا ہے۔ ان قوانین کی و جہ سے عورت کامستقبل اور عزت محفوظ رہتی ہے ۔ محترمہ عائشہ منور کا خیال ہے کہ قوانین کی مخالفت کرنے کے بجائے اس طریقہ کار کی مخالفت کرنی چاہئے جس کی پیچیدگی کی وجہ سے عورت کو صحیح انصاف نہیں مل پاتا۔ اور یہ کام پولیس کلچر اور عدلیہ میں اصلاحات کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ عائشہ منور نے کہا کہ حدود آرڈیننس کی آڑ میں اسلام کو بدنام کرنے کا این جی اوز نے سلسلہ شروع کررکھا ہے اورنیشنل کمیشن فارویمن کی چیئرپرسن نے حدود لاز کے خاتمہ کے لئے جو رپورٹ تیار کی ہے ،ہم اس کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اللہ کے قوانین کی مخالفت کرنے اور مذاق اُڑانے والوں کو نشانِ عبرت بنا دیں گے۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) کی رہنما، کالم نگار اور دانشور رکن قومی اسمبلی بیگم بشریٰ رحمن بھی اس سلسلے میں ایک واضح اور صاف موقف رکھتی ہیں ۔ آپ نے اس مسئلے پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر معاملے میں مغرب کی اندھی تقلید نے ہمیں مذہب سے دور اور بے حس کردیا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے اختلاف کرتے کرتے اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات سے بھی نہ صرف انکار کرنے لگے ہیں بلکہ ان پر تنقید کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ جہاں تک نیشنل کمیشن کی چیئرپرسن جسٹس (ر) واجدہ رضوی کی طرف سے حدود قوانین کے خاتمے کی سفارش کئے جانے کا تعلق ہے،اس مسئلے پر کمیشن کے اندر بھی اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔میری ذاتی رائے یہی ہے کہ یہ قانون ختم نہیں ہونا چاہئے ۔ این جی اوز کی جو خواتین حدود آرڈیننس کی مخالفت اور خاتمہ کے لئے متحرک ہیں ، ان سے میں کہوں گی کہ وہ عورتوں کے حقوق کی آواز ضرور بلندکریں ۔ مگر مغرب کے بجائے اسلام کی طرف دیکھیں جس نے چودہ سو سال پہلے عورت کو نہ صرف سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق بلکہ چادر اور چار دیواری کا تحفظ بھی فراہم کیا۔ اسلام عورت کی حرمت سے کھیلنے والوں کے لئے عبرت ناک سزا تجویز کرتا ہے۔ حدود لاز کی زد میں عورتوں سے زیادہ مرد آتے ہیں اور عورت پر زنا کا جھوٹا الزام لگانے والے مرد کو بھی کوڑوں کی سزا دینے کا حکم ہے۔ دراصل پولیس کی غلط تفتیش، طریقہ کار اور اختیارات کی وجہ سے حدود قوانین غیر مؤثر ہوکر بدنام ہورہے ہیں ۔ حدود آرڈیننس کسی بھی اعتبار سے عورت کی حق تلفی نہیں کرتا۔ اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ