کتاب: محدث شمارہ 276 - صفحہ 10
آرڈیننس کی ان شقوں کے خلاف ہیں جن میں عورتوں کے حقوق سلب کئے گئے ہیں مثلاً عورت کی گواہی، عورتوں کے لئے مختلف سزائیں وغیرہ۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حدود آرڈیننس کو ختم کیا جائے اور اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو اس کی ان شقوں کو جن میں عورتوں کے حقوق سلب کئے گئے ہیں ، ان پر نظرثانی کی جائے تاکہ کوئی مفاد پرست شخص یا پولیس اس قانون کو عو رتوں کے خلاف استعمال نہ کرسکے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے عورت کی گواہی کو بھی برابر اہمیت دی جائے۔ ملت پارٹی کی رہنما اور رکن پنجاب اسمبلی درّ ِشہوار نیلم نے کہا کہ بحیثیت ِمسلمان میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں خود زانی مرد اور عورت کے لئے ایک سزا کا تعین کردیا ہے توہمیں اس سے اختلاف کی جرأت نہیں کرنی چاہئے۔ بدقسمتی سے ہم یہ بات فراموش کررہے ہیں کہ لادین ریاستوں میں مذہب کو پس پشت ڈال کر انسانی حقوق کی بات کی جاتی ہے جبکہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے جہاں قرآن اور سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ زنا آرڈیننس کی مخالفت محض مفروضوں کی بنیاد پر کی جارہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حدود آرڈیننس کی مخالفت اور اس کا خاتمہ کرنے کی بجائے اس قانون کی وہ شقیں جن کے حوالے سے مختلف تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے، قانون سازی کے ذریعے انہیں معاشرے کے تمام طبقوں کے لئے قابل قبول بنایا جائے۔ یہ کہنا کہ قانون ہی غلط ہے، بچگانہ سوچ ہے۔ زنا آرڈیننس کی مخالفت کرنے والے طبقے دین کے علم سے محروم ہیں ۔ زنا کے جرم کو ثابت کرنے کے لئے چار گواہوں کی شرط کا مقصد عورت کو تحفظ فراہم کرنا ہے تاکہ ذاتی عناد کی بنا پر کوئی کسی عورت پر زنا کا جھوٹا الزام لگاکر اسے سزا نہ دلوا سکے۔ اگر کوئی عورت زنا بالجبر کی شکایت کرتی ہے تو یہ اس عورت کی نہیں ، استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ چارگواہ پیش کرے۔ اگر پولیس گواہ پیش نہ کرسکے لیکن مقدمہ کے دیگر حالات و واقعات عورت کی شکایت اور الزام کی تصدیق کرتے ہوں تو محض عورت کی گواہی پر بھی ملزم مرد کو سزا ہوسکتی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت ایسے کئی فیصلے دے چکی ہے۔ ایم ایم اے کی رکن قومی اسمبلی بیگم عائشہ منور کا موقف ہے کہ حدود کے قوانین عورتوں کے محافظ ہیں ، ان کی زد عورتوں کی نسبت مردوں پر زیادہ پڑتی ہے۔ خوفناک سزا کا خوف مرد کو