کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 7
i ) ’’في کل خمس من الابل السائمۃ شاۃ‘‘ (حاکم:۱/۳۹۶)
’’ہر پانچ سائمہ (باہرجنگل میں چرنے والے) اونٹوں پر ایک بکری زکوٰۃ ہے۔‘‘
ii)’’في کل سائمۃ إبل في أربعین بنت لبون‘‘ (ابوداؤد:۱۵۷۵،احمد: ۵/۲،۴،نسائی:۲۴۴۹)
’’ہر چالیس سائمہ (باہر چرنے والے) اونٹوں پر ایک بنت ِلبون (وہ اونٹنی جس کا تیسرا سال شروع ہو) زکوٰۃ پڑتی ہے۔‘‘
iii )’’في صدقۃ الغنم في سائمتھا إذا کانت أربعین إلی عشرین ومائۃ شاۃ‘‘ (بخاری:۱۴۵۴،ابوداود:۱۵۶۷)
’’چالیس سے ۱۲۰ تک سائمہ بکریوں میں ایک بکری زکوٰۃ ہے۔‘‘
واضح رہے کہ ’سائمہ‘ کے الفاظ اونٹوں اور بکریوں کے بارے میں ہیں تاہم جمہور فقہا نے اس پر قیاس کرتے ہوئے گائیوں کے بارے میں بھی یہی شرط بیان کی ہے اور وہ احادیث جن میں سائمہ یا غیرسائمہ (معلوفہ) کاکوئی فرق مذکور نہیں ، ایسی (مطلق) احادیث کو انہوں نے ان مقید احادیث پر محمول کیا ہے جن میں سائمہ کا ذکر ہے۔ البتہ امام مالک غیر سائمہ پربھی زکوٰۃ کو واجب قرار دیتے ہیں اور سائمہ کی شرط کو قید ِاتفاقی قرار دیتے ہیں۔(حاشیۃ الدسوقي علی الشرح الکبیر:ج۱/ص۴۳۲، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ ۱/۵۹۶) لیکن ان کا یہ مسلک أقرب الی السنۃ معلوم نہیں ہوتا۔
3. حیوانات ’غیر عاملہ‘ ہوں : غیر عاملہ کامعنی یہ ہے کہ وہ جانور افزائش نسل کے لئے ہوں ، بار برداری، کھیتی باڑی اور ایسی ہی دیگر خدمات کیلئے نہ ہوں جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’لیس علی العوامل شیئ‘‘ (ابوداؤد:۱۵۷۲ ، دارقطنی ۲/۱۰۳، نصب الرایۃ ۲/۳۵۳)
’’کام کرنے والے جانوروں پرکوئی زکوٰۃ نہیں ۔‘‘
اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’حراثۃ (یعنی ہل چلانے والے) جانوروں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘ (کتاب الاموال: ص۳۸۰ بحوالہ فقہ الزکوٰۃ:۱/۲۳۲)