کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 6
معیشت واقتصاد حافظ مبشر حسین لاہوری قسط نمبر۲ اسلام کا نظامِ زکوٰۃ اور چند جدید مسائل نصابِ زکوٰۃ کے حوالے سے شریعت دو پہلوؤں سے گفتگو کرتی ہے :ایک تو یہ کہ کون کون سا مال موجب ِزکوٰۃ ہے اور دوسرا یہ کہ اس مال کی کتنی مقدار پرکس قدر زکوٰۃ اداکرنا ہوگی۔ آئندہ سطور میں ان دونوں پہلوؤں پر بالتفصیل روشنی ڈالی جائے گی۔ موجب ِزکوٰۃ اموال کون سے؟ شریعت نے جن اَموال پر زکوٰۃ کو واجب قرار دیا ہے وہ یہ ہیں : (i)حیوانات (ii) سونا، چاندی (اور نقدی، کرنسی) (iii)زمینی پیداوار(ان کی زکوٰۃ کو فقہی اصطلاح میں ’عشر ‘سے موسوم کیا جاتا ہے ) اور (iv) تجارتی اموال ان کی مزید تفصیل حسب ِذیل ہے : 1. حیوانات کی زکوٰۃ حیوانات کی زکوٰۃ سے متعلقہ چند اہم شروط درج ذیل ہیں : 1. ایک سال کا دورانیہ: حیوانات پرزکاۃ کے لئے ضروری ہے کہ ان پرایک سال کا عرصہ گزر چکا ہو، اس شرط کی تفصیل گذشتہ سطور میں گزر چکی ہے۔ 2. حیوانات سائمہ (چرنے والے) ہوں : حیوانات کے حوالے سے دوسری شرط یہ ہے کہ متعلقہ حیوانات پورا سال یا سال کا اکثر و بیشتر حصہ باہرجنگلوں میں چرتے ہوں یا دوسرے لفظوں میں انہیں چارہ ڈالنے کا کوئی خرچہ نہ آتا ہو(ایسے جانوروں کو احادیث میں ’سائمہ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے)۔ لیکن اگر پورے سال یا سال کے اکثر حصے کا چارہ قیمتاً حاصل کیا جاتا ہو تو پھر ان جانوروں پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہوگی۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہے :