کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 5
پریشانیوں سے چھٹکارا پانے اور خواہشات کے حصول کی وہی دوڑ!!
ٹیکنالوجی کی معراج انفارمیشن سائنس یعنی ابلاغی آلات نے ہمارے تہذیبی رویوں کو بدلنے اور انہیں اپنے ڈھنگ میں ڈھالنے کا فریضہ بڑی چالاکی سے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ ابلاغ کے ان محیر العقول ذرائع پر جن ذہنوں کی اِجارہ داری ہے، ان کے نزدیک دنیا کا تصور ’لہو ولعب‘ سے زیادہ نہیں ۔ اگر ذرائع ابلاغ پر قابض اور ہمارے فکر وذہن پر مسلط یہ طبقہ خود گم گشتہ راہ ہے اور ہدایت کی بجائے ظلمت کی تاریکیوں میں بستا ہے تو نادانی اور جہالت کا یہ زہر وہ تمام دنیا کے ذہنوں میں بھی پوری شدت سے اُنڈیل رہا ہے ۔ اس کے بالمقابل دینی فکر اور معاشرتی روایات کو شدید چیلنج درپیش ہیں ۔
اس دور میں اُس ابلاغی تسلط اورتحکم جو ہردم ہمارے قلب وذہن پر اثر جمانے کی تاک میں ہے، سے بچنے کا راستہ یہی ہے کہ اپنے آپ کو حالات کے دھارے پر بہانے کی بجائے اپنی آنکھیں خود کھول کر حقائق سے آگاہ اور خبردار رہا جائے۔ اپنی روایات میں سے اچھی باتوں کا تعین کرکے انہیں زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ قوم کے سنجیدہ فکر افراد اپنی تہوراوں اور مذہبی شعارات کے بارے میں معمولی سی حساسیت بھی دکھائیں تو ان کے مقابل آنے والا ہر تیر انہیں بخوبی نظر آنے لگے گا اور وہ اس سے اپنی قوم کو بخوبی آگاہ کر سکیں گے۔
نئی نسل ہمارے روشن مستقبل کی ضامن ہے، دیگر مسلم معاشروں کی طرح ہماری نوجوان نسل بھی لہو و لعب اور صنفی سیلاب میں بہنے لگی تو پھر صبح نو کی آرزو دم توڑ دے گی اور نئی سحر طلوع ہونے سے پہلے شب ِتاریک کو ظلمت ِ دوام عطا کرے گی۔ نئی نسل کی دلچسپیاں اور اس پر مستزاد کیبل وانٹرنیٹ کی تاریکیاں ہمیں قومی سطح پر بہت کچھ سوچنے کا پیغام دیتی ہیں !!
اگر خوشی کے لمحات بھی ہمارے اپنے نہیں بلکہ غیروں کے عطا کردہ ہیں ۔ عیدیں ہمیں وہ مسرت نہیں دیتیں جو بسنت اور ویلنٹائن ڈے جیسے بیہودہ دنوں میں نوجوانوں میں نظر آتی ہے، عیدوں میں گرم جوش شرکت کو بیک ورڈ اور رجعت پسندی سمجھا جاتا اور غیروں کے تہواروں میں پرجوش شرکت کو جدت پسندی اور ماڈرن ہونے کی ضمانت اور علامت بتایا جاتا ہے تو پھر ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارے جسد ِقومی کو خطرناک سرطان لاحق ہے جس سے پیچھا چھڑانے کی ہمیں جلد از جلد تدبیر کرنا ہوگی!! (حافظ حسن مدنی)