کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 43
قرآنِ مجید میں چونکہ مسجد ِحرام کے حوالے سے ایک اُصول بیان کردیا گیاتھا کہ’اللہ کی مساجد‘ پر تولیت کا حق صرف ہدایت یافتہ یعنی مسلمانوں کو ہے، اسی لئے آپ نے اس کی وضاحت ضروری نہ سمجھی، ثالثاً اس وقت یہ کوئی اتنا اہم مسئلہ بھی نہ تھا ورنہ کسی نہ کسی صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی وضاحت ضرور طلب کی ہوتی، مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کا مسئلہ بعد میں سامنے آیا، درحقیقت یہ کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں کیونکہ کوئی حریف گروہ اس کے استحقاق کا دعویدار ہی نہیں تھا۔ 4. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذہن میں مسجد اقصیٰ کی مفروضاتی تولیت کا مسئلہ کیونکر آتا؟ ان کے دور تک توکسی یہودی نے وہاں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا دعویٰ نہیں کیاتھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو قرآن مجید کی سورۃ الانفال کی روشنی میں بالکل واضح سوچ رکھتے تھے کہ مسجد اقصیٰ کے متعلق اگر تولیت کاکبھی مسئلہ سامنے بھی آیا تو اس پرمسلمانوں کو ہی حق حاصل ہوگا۔ وہ دور از کار تاویلات میں جانے والے نہ تھے جس طرح کی معتزلہ اور ان کی روحانی ذرّیت آج کل تاویل تراشی میں مبتلا نظر آتی ہے۔ 5. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے معاہدے میں تولیت کے ذکر کی توقع رکھنا عجیب معلوم ہوتا ہے۔ نجانے مصنف نے یہ کیسے فرض کرلیا چونکہ اس کامعاہدے میں ذکر نہیں لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجداقصیٰ پریہودیوں کے حق تولیت کو مانتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت یہ بات کسی کے ذہن میں نہ تھی کہ یہودی اسی جگہ پر ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ جیساکہ پیچھے اس نکتہ پر ہم روشنی ڈال چکے ہیں ۔ 6. سیکورٹی اور اسلامی ریاست کے تحفظ اور رازداری کی وجہ سے مکہ و مدینہ کا بیت المقدس سے موازنہ نہیں کیاجاسکتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جزیرۃ العرب کو غیر مسلموں سے پاک رکھنا چاہتے تھے۔ چونکہ بیت المقدس اس سے باہر تھا، اس لئے سیکورٹی کے اس اُصول کو وہاں نافذ نہیں کیا۔ معلوم نہیں اس مسئلہ کا حق تولیت سے کیا تعلق ہے جو مصنف اس کا تذکرہ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ؟ 7. مصنف کا دعویٰ اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ فقہا نے اس اہم معاملے سے چونکہ تعرض نہیں کیا لہٰذا ’عدمِ تعرض ہی اس تصور کی نفی کے لئے کافی ہے۔ ہم پہلے ہی عرض کرچکے ہیں کسی چیز کے بارے میں عدم تعرض یا سکوت کسی دوسری شے کے وجود و ثبوت کو مستلزم نہیں ہے۔ فرض کیجئے اگر ’عدمِ تعرض‘ کے فلسفہ کو قابل اعتنا ہی سمجھ لیا جائے تو کسی چیز کے متعلق عدمِ تعرض