کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 42
غلط استدلال کیا ہے، ان کے ذہن پر صرف ’تولیت‘ ہی سوار ہے، انہیں اس مسئلہ کو اسلامی تاریخ کے وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 2. ’اہل کتاب کوسیاسی لحاظ سے مغلوب کرنے تک محدود‘ رکھنے کا استدلال محض مصنف کی اختراع اور تجدد پسندی ہے، انہیں یہ خیال بالکل ہی نہیں رہا کہ مدینہ اور خیبر میں یہودیوں کومغلوب کرلینے تک اکتفا نہ کیا گیا بلکہ انہیں جزیرۂ عرب سے بے دخل بھی کیا گیا۔ مزید برآں مصنف نے قرآنِ مجید کی جس آیت سے استنتاج (Inference) فرمایا ہے ، وہ بھی ان کے فکر ِاعتزال سے متاثر ہونے کا شاخسانہ ہے، ورنہ اس آیت سے قطعاً وہ ثابت نہیں ہوتا جو وہ فرماتے ہیں ، وہ آیت درج ذیل ہے: ﴿ قَاتِلُوْا الَّذِیْنَ لاَ یُؤمِنُوْنَ بِااللّٰهِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الاٰخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوْتُوْا الْکِتَابَ حَتّٰی یُعْطُوْا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صَاغِرُوْنَ﴾ (سورۂ توبہ:۲۹) ’’اہل کتاب کے ساتھ، جو نہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، نہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ دین حق کی پیروی اختیار کرتے ہیں ، برسر جنگ ہوجاؤ یہاں تک کہ وہ زیر دستی قبول کرکے ذِلت کی حالت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہوجائیں ۔‘‘ اس آیت میں اگر مذہبی مراکز پر یہودیوں کے حق تولیت کا ذکر نہیں ہے، تو اس میں تعجب کا کون سا قرینہ ہے۔ جزیرہ نماعرب میں آخر کون سی ایسی عبادت گاہ تھی جس کی تولیت تصفیہ طلب تھی اور اس کے متعلق قرآنی فیصلہ صادر کیاجاتا؟ یہ عجیب منطق ہے کہ چونکہ اہل کتاب کو مغلوب کرنے اور ان سے جزیہ لینے جیسے احکامات پر مبنی آیت میں اگر تولیت کاذکر نہیں ہے تو اس سے ثابت ہوتاہے کہ یہود کا حق تولیت منسوخ نہیں ہوا۔ ایسی منطق سے تو ہر معقول بات کی تردید کی جاسکتی ہے، مسئلہ تولیت کو آخر کیا خصوصیت حاصل ہے۔ کسی چیز کے عدمِ ذکر و سکوت سے اس کا وجود ثابت کرناکوئی مستند استدلال نہیں ۔ 3. اگر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کے متعلق کوئی صریح ہدایت موجود نہیں ہے، تو یہ بات قابل فہم ہے اور عقل عام کا تقاضا ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا، کیونکہ خانہ کعبہ اور مسجد ِحرام کی طرح مسجد ِاقصیٰ پرفوری قبضے کا کوئی معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر تھا ہی نہیں ۔ خانہ کعبہ کی طرح وہاں کوئی عمارت بھی نہ تھی جس کی تولیت کی بات کی جاتی۔ ثانیاً