کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 40
یہ تو اتنی اہم بات ہے کہ آپ بھی روزانہ ہی اس پر عمل کرتے ہیں … یہ تجدد پسندوں کا وہ گروہ ہے جس نے عقلی موشگافیوں میں پڑ کر شادی شدہ زانی کے لئے ’رجم‘ کی سزا سے انکار کردیا ہے۔ نجانے قرآن و سنت کی وہ کون سی تصریحات ہیں اور سیرتِ نبوی کے وہ کون سے واقعات ہیں جس سے مصنف کے خیال میں یہودیوں کامسجد اقصیٰ پر حق تولیت ابھی تک قائم ہے؟ جوکچھ انہوں نے اپنے مقالہ میں پیش کیا ہے، اس سے تو ان کے موقف کی نفی ہوتی ہے نہ کہ تصدیق۔ ہم منتظر ہیں کہ وہ اپنے کسی دوسرے ’علمی مضمون‘ میں ان ’تصریحات‘ پر روشنی ڈال کر ہمیں مستفید فرمائیں گے۔ حق تولیت کی منسوخی کے خلاف اشراقی دلائل اشراقی مضمون نگار نے اس مضمون کے آغاز میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس موضوع کا ’قرآن و سنت کی روشنی میں بے لاگ‘ جائزہ لیں گے اور قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ’عدل وانصاف کا دامن کسی حال نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ اگر تو ’بے لاگ‘ جائزے کا ان کے ذہن میں تصور یہ ہے کہ اپنے عقلی نکتہ آرائیوں کے مقابلے میں ملت ِاسلامیہ کے اجماعی موقف کا ردّ پیش کردیاجائے اور اپنے پہلے سے قائم کردہ مفروضات کو ’تحقیق‘ کے نتیجے میں درست قرار دیا جائے، تو بلاشبہ مصنف ’بے لاگ‘ جائزہ لینے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ اگر ان کے پیش نظر ’بے لاگ‘ کاوہی مطلب ہے جو کہ عام طور پر لیا جاتا ہے تو پھر مشرکوں (یہودیوں ) کی ہم نوائیمیں شرمندگی کے سوا شاید ہی ان کے مقدر میں اور کچھ آسکے۔ قرآنِ مجید نے یہ تو ہدایت دی ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں ان کے خلاف ناانصافی پرنہ اُبھارے، مگر قرآن مجید کی یہ تعلیمات ہرگز نہیں کہ کسی غیر قوم کی دوستی تمہیں اپنی قوم یعنی ملت ِاسلامیہ کی توہین وتخفیف پر اُبھارے، اشراقی مصنف نے درحقیقت مؤخر الذکر ’کارنامہ‘ انجام دیا ہے، اب اس پر اگر وہ اِتراتے ہیں تو پھر ان کو ’پندار‘ سے کون روک سکتا ہے!! ملت ِاسلامیہ کے جید علما نے مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کے متعلق یہودیوں کے حق کی منسوخی کے متعلق جو استدلال کیا ہے، نوخیز اشراقی سکالر اس کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ موصوف نے جو دلائل قائم کئے ہیں ، اس کا خلاصہ درج ذیل ہے :