کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 4
روایات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ بعض لوگوں کو عید کے دن ہی اپنے کام سے آرام لینے اور نیند پوری کرنے کا موقع ملتا ہے۔ چاند رات کی غیر معمولی مصروفیت اور دو تہائی رات تک شب خیزی سے بھی عید کا دن تھکاوٹ اُتارنے میں گزر جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ ۵۰ برسوں میں انسان نے ترقی کے اس قدر مراحل طے کئے ہیں جس کی سابقہ پوری تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔یہی بات ان الفاظ میں بھی کہی جاتی ہے کہ سابقہ معلوم تاریخ کا پورا علم آخری ۵۰ برسوں میں دوگنا ہو گیا ہے ۔وفاقی وزیر سائنس ڈاکٹر عطاء الرحمن نے چند روز پہلے ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اگر ایجاد ودریافت کا یہ عمل اسی طرح جاری رہا تو آئندہ ۱۰/برسوں میں سابقہ تمام علم دوگنا ہوسکتا ہے۔ سائنس وٹیکنالوجی کی حد تک ممکن ہے یہ بات درست بھی ہو، آج سے ۲۰ سال قبل جو باتیں حاشیہ خیال میں بھی نہ آتی تھی، آج اٹل حقیقت کا درجہ رکھتی ہیں ۔ ۱۰ برس قبل آنے والے کمپیوٹرز اور موبائل فونز آج ترقی یافتہ دنیا سے نکل کر ترقی پذیر ملک کے ہر فرد کے ہاتھ میں موجودہیں ۔ لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو اس عرصے میں کریمانہ اخلاق اور خصائل حمیدہ ارتقا کی بجائے بڑی تیزی سے رو بہ تنزل ہیں ۔ انسان نے مادّہ کی دوڑ میں سالوں کا سفر چند جستوں میں طے کر لیا ہے تو شرافت ومتانت اور دیانت وامانت میں وہ اپنے آباؤ واجداد سے بہت پیچھے چلا گیا ہے بلکہ یہاں انسانیت کو بھی اس نے شرمندہ کر دیا ہے۔ یہاں رجعت ِقہقریٰ بڑی تیزی سے جاری ہے !! اسی سائنسی تطوراور جدید ٹیکنالوجی نے ہر فرد کو مسحور اور مسخر کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب میں بہت جلد تبدیلیاں بپا کی ہیں ۔ علم وارتقا کے تیزتر سفر کے ساتھ تہذیب وتمدن کا سفر بھی بڑی تیزی سے جاری ہے۔ تہذیبوں میں تبدیلیاں اس قدر تیزی سے آرہی ہیں کہ ہر آنے والا دن پچھلے دن سے مختلف ہے اور چند سال پہلے کا تذکرہ قصہ ماضی لگتا ہے۔ عیدوں کی تیاری میں جو سرگرمیاں کئی روز پہلے شروع ہوتیں ، اور اس کی سہانی یاد کئی دن تک ساتھ دیتی، اب عید کے روز ہی دم توڑنے لگتی ہے۔ رمضان المبارک میں حاصل کی گئی تربیت عید گزرتے ہی اثر کھونے لگتی ہے اور انسان دوبارہ اسی مصروف زندگی کا کل پرزہ بن کر مشینی تہذیب میں گم ہوجاتا ہے جہاں اس کے روز وشب کے پرانے معمولات ہیں اور اپنی