کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 35
ایسا آپ نے اس سے پہلے یا بعد میں کبھی نہیں کیاتھا۔ آپ کی مروّت، تالیف ِقلب اور وسعت ِقلبی کا نتیجہ تھاکہ کعبہ کے متولی جلد ہی مسلمان ہوگئے اور بعد میں بھی یہ سعادت ان کے خاندان کو حاصل رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہِ بصیرت دیکھ رہی تھی کہ وقتی طور پر کعبہ کی تولیت مشرکوں کے پاس رہنے دینے سے کس قدر عظیم نتائج مرتب ہوسکتے ہیں ۔ دراصل یہ نبی کریم کی ان مشرکین کو مسلمان کرنے کی حکمت ِعملی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوۂ حسنہ کو مسجد اقصیٰ کے معاملے میں آخر کس طرح پیش کیا جاسکتا ہے۔ جب مسلمانوں نے مسجد ِاقصیٰ کو فتح کیا تو یہودیوں میں سے کوئی بھی اس کا متولی موجود نہ تھا اور نہ ہی کسی سے اس طرح کی تالیف ِقلب کے اظہار کی ضرورت پیش آئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جس طرح عیسائی پادریوں سے حسن سلوک سے کام لیا، ان سے یہ بعید نہ تھا کہ وہ یہودیوں سے بھی ویسا سلوک کرتے۔ جب یروشلم کی فتح کے موقع پر کوئی ہیکل سلیمانی تھا نہ اس کا متولی، تو پھر فتح مکہ اور فتح یروشلم کے واقعات کو ایک سطح پر لانا قیاس مع الفارق ہے۔ اشراقیوں کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ یہ لوگ احادیث کے بظاہر منکر تو نہیں ہیں ، مگر کتب ِاحادیث کو ’تاریخ‘کا درجہ دے کر زیادہ قابل اعتنا بھی نہیں سمجھتے۔ اگر اشراقی محقق احادیث کا مطالعہ فرما لیتے تو وہ بات شاید کبھی نہ کرپاتے جو انہوں نے غیر ذمہ داری سے کر ڈالی۔ وہ تو یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ فتح مکہ کے تقریباً ایک سال بعد تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی تولیت کی ذمہ داری مشرکین کو دئیے رکھی، جو کہ درست نہیں ہے۔ اصل حقائق یہ ہیں کہ فتح مکہ کے بعد کعبۃ اللہ کی تولیت مشرکوں کے پاس چند گھنٹے بھی نہ رہی۔ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ کی ’سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘ سے درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے : ’’اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن طلحہ سے چابی لی، بیت اللہ کا دروازہ کھولا، اس میں بت رکھے تھے، ان میں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کے مجسّمے بھی تھے، جن کے ہاتھوں میں قسمت آزمائی کے تیر تھمائے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان کو برباد کرے، بخدا! انہوں نے ان تیروں کے ساتھ کبھی قسمت آزمائی نہیں کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے اندر موجود سب تصویروں کو مٹانے اور تمام بتوں کوتوڑنے کا حکم دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، بلال رضی اللہ عنہ ، اسامہ رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ چار آدمی بیت اللہ میں داخل ہوئے، تو دروازہ بند کردیا گیا۔ دروازے کے سامنے کی جانب دیوار کی طرف بڑھے، جب تقریباً تین ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر وہاں نماز پڑھی پھر دروازہ کھول کر باہر نکلے۔ قریش نے صفیں باندھیں اور مسجد میں منتظر تھے کہ دیکھیں آج ان